لداخ ایک بہانہ مقصد سری نگرمیں فوج بڑھانا

بھارت اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ چین سے نہیں لڑ سکتا۔ بھارت نے باسٹھ میں نیفا کے محاذ پر چین سے بری طرح شکست کھائی تھی پھر اسے عافیت تب ملی جب اس نے چین بھارت بھائی بھائی کے نعرے لگائے۔ اب بھارت کو لداخ میں چین سے ذلت آمیز مار پڑی ہے۔ وہ چین کو کسی سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکی دینے کے قابل نہیں۔ شانتی مانگتا ہے اور تنازعے کا حل بات چیت سے نکالنے کی بھیک مانگ رہا ہے۔ لداخ میں بھارت کی چودھویں کور کے کمانڈر کبھی کبھار مد مقابل چینی جرنیل سے مذاکرات سے دل بہلانے کی کوشش کرتے ہیں مگر چین کے صدر واضح طور پر اپنی فوج کو جنگ کی تیاری کا حکم دے چکے ہیں جبکہ بھارت میں چین کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں۔ اس نے دکھاوے کے لئے دو کام کئے ہیں ، ایک تو تین ہفتے قبل جمعہ کے روز مودی اچانک لیہہ پہنچے اور اپنے اڑتیس زخمی فوجیوں کی عیادت کی۔ پھر ایک لمبی چوڑی تقریر بھی کی مگر پوری تقریر میں بھولے سے چین کا نام تک نہ لیا۔ اب پھر جمعہ ہی کے روزبھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ لداخ پہنچے ہیں جہاں فضا میں اپاچی ہیلی کاپٹروںنے پرواز کی اور چند کمانڈوز نے پیرا جمپ لگا کر اپنے ہی علاقے میں ایک خیمے کو آگ لگا ئی۔بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اس کے بعد ایک تقریر کی جس میں اس نے دس منٹ میں دس بار چین سے شانتی کی اپیل کی۔ بھارتی چینلز نے مودی اور اب وزیر دفاع کے دورے پر بڑھکیں تو خوب ماریں مگر ان کی آواز کا کھو کھلا پن نمایا ںتھا۔
بھارت نے لداخ میں چین سے متھا کیوں لگایا۔ در اصل یہ ایک ڈرامے کا حصہ ہے کیونکہ بھارت دیکھ چکا ہے کہ اس کی آٹھ لاکھ فوج کئی برسوں سے وادی کشمیر میں تحریک آزادی کو دبانے میںناکام رہی ہے۔ اور گزشتہ برس پانچ اگست کے ڈھکوسلہ لاک ڈائون سے بھی وہ کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کچلنے میں ناکام رہا ، اس کے بعد کرونا کا لاک ڈائون آ گیا، پھر بھی آزادی کے متوالوں کو گھروں میں قید نہ کیا جا سکا۔ بھارت اپنی بے بسی پر خون کے آنسو رو رہا ہے اور اسے کشمیر میںمزید فوج داخل کرنے کا بہانہ چاہئے تھا، سواس نے لداخ میں خود چین سے پنگا لیاا ور ظاہر ہے اس نے منہ کی کھانی تھی، بائیس لاشوں کے ساتھ بھارت میں کہرام مچ گیا، مودی سرکار کو اسی پس منظر کی ضرورت تھی سو اب لداخ کی آڑ میں ایک ڈویژن فوج مزید اتارنے کی باتیں شروع ہو گئی ہیں اور دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت ایک کے بجائے دو ڈویژن فوج کشمیر میں لائے گا اس فاضل فوج کا بہت تھوڑا حصہ گالوین وادی اور دولت نگر کے آس پاس متعین کیا جاے گا، باقی صرف دنیاکو دکھانے کے لئے اپاچی ہیلی کاپٹر فضائوں میں اڑتے رہیں گے مگر زیادہ تر فاضل فوج کو وادی میں کشمیریوں کے سروں پہ سنگینیں دے کر کھڑا کیا جائے گا۔ اس وقت ہر آٹھ یا نو کشمیریوں کے سر پہ ایک بھارتی فوجی سنگین تانے کھڑا ہے۔ مگر دو ڈویژن مزید فوج لانے کے بعد ممکن ہے کہ ہر تین یا چار کشمیریوں کے سر پہ ایک بھارتی فوجی پہرہ دے رہا ہو۔ مگر بھارت نہیں جانتا کہ کشمیر میں قربانیوں کاا ٓغاز تیرہ جولائی انیس سو اکتیس کو ہو اتھا جب ایک اذان مکمل کرنے کی خاطر بائیس کشمیری جوانوںنے شہادت کادرجہ حاصل کیا تھا،۔ اور اب برہان مظفر وانی کی شہاد ت کے بعد تو کشمیر کے ننھے بچے بھی شہادت کی آرزو سے سرشار ہیں ۔ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے نانا کو گولی سے اڑایا جاتاہے مگر ننھے بچے کی آنکھوں میں آنسو نہیںلہراتے۔اپنی شہادت کی آرزو مچلتی دکھائی دیتی ہے۔ بھارت نے وادی کشمیر کو حقیقی معنوں میں ایک قید خانے میں تبدیل کر دیا ہے ، اب پوری وادی میں اس کا کوئی حلیف نہیں، شیخ عبداللہ۔ محبوبہ مفتی اور غلام نبی آزاد کی صورت میں جو اس کے پائوں چاٹتے تھے ۔اب وہ بھی قید وبند کو بھگت رہے ہیں۔ حریت کانفرنس کے راہنما توہمشیہ سے جیلوں میں ہیں اورپابندیوں کا شکار ہیں۔ عام کشمیری بھارتی محاصرے سے نہیں ڈرتاے، وہ لاک ڈائون اور کرفیو کی پابندیوں سے بھی خائف نہیں اور وہ کرونا وائرس کے لاک ڈاوئن کو بھی خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔ وہ گھر سے سینہ تانے باہر نکلتا ہے اور آزادی آزادی کے نعرے بلند کرتا شہادت کے مرتبے پر سر فراز ہو جاتا ہے ، بھارت نے بنیادی حقوق کی عالمی تنظیموں پر سری نگر اترنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے، دنیا لا علم ہے کہ بھارتی فوج کشمیریوں پر کیا جبر اور ظلم کر رہی ہے کتنے نوجوانوں کو پوچھ گچھ کی آڑ میں غائب کر چکی ہے اور کتنی خواتین کی عزت تار تار کر دی گئی ہے۔
بھارت کشمیریوں کے ان جذبوں کو کچلنے کی آخری کوشش کرنا چاہتا ہے اس نے لداخ کا محاذ کشمیر میں مزید فوج اتارنے کے بہانے کے لئے کھولا ہے ورنہ کہاں چین ا ور کہاں بھارت۔ ممولہ شہباز سے لڑے گا تو کیسے لڑے گا ۔ وہ نہیں لڑ سکتا صرف نہتے کشمیریوں کو کچلنا چاہتا ہے ۔ کشمیر سے تین سو ستر ہٹا کر قبضہ جمایا چکا ہے۔ پینستین اے ختم کر کے کشمیر میں جائیداد خریدنے کادروازہ کھول دیا گیا ہے ۔ یہ اسرائیکی فارمولہ ہے جس نے فلسطینیوں کو بے دخل کر کے یہودی بستیاں بسا لیں۔ مگر بھارت نہیں جانتا کہ کشمیری تنہا نہیں ہیں بلکہ خود بھارت تنہائی کا شکار ہے ،چین اور پاکستان سے ا سکی کھلی جنگ چل رہی ہے، نیپال بھی اسے آنکھیں دکھا رہا ہے۔ امریکہ اور ورس اس کی مدد کرنے کے قابل نہیں اور ایک ایران پر اس کا تکیہ تھا اس نے چاہ بہار کے پراجیکٹ سے بھارت کو نکال باہر کیا ہے۔ اس عالم میں بھارت نے کسی ہمسائے سے کیا لڑنا وہ صرف کشمیریوں پر دھونس جما سکتا ہے اور لداخ کے بہانے مزید فوج لا کر ان کے سروں پہ کھڑی کرنا چاہتا ہے۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن