مظلوم کشمیریوں کی مدد کون کرے گا؟؟؟؟

دنیا بھر میں کشمیریوں نے یوم الحاق پاکستان منایا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اور قربانیوں کا ذکر لازم ہے۔ کچھ شک نہیں کہ جتنا ظلم کشمیریوں نے برداشت کیا ہے یہ ان کی ہمت ہے۔ دہائیوں سے بھارتی فوج کے ظلم و ستم کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں وہ سر نہیں جھکا رہے، آزادی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔نسلیں آزادی کا سورج دیکھنے کی خواہش دل میں لیے دنیا سے چلی گئیں۔ بچوں کا خون ہوا،خواتین کی عزتیں پامال ہوئیں، جوانوں کو ظالمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا انہیں آزادی کی خواہش رکھنے پر جینے کا حق چھین لیا گیا لیکن بہادر کشمیری آج بھی بھارتی فوج کے سامنے سر جھکانے کے بجائے سر کٹوانے کو ترجیح دیتے ہوئے آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ کشمیریوں کی یہ قربانیاں سنہرے حروف میں تو لکھی جائیں گی لیکن بھارتی مظالم اور بیحس دنیا کا کردار ہمیشہ بدترین الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔ بالخصوص پانچ اگست دو ہزار انیس سے آج تک کشمیریوں پر جاری مظالم کو نئے مرحلے میں داخل کیا گیا ہے۔ کشمیریوں کو کرفیو اور لاک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ رابطے کے ذرائع منقطع ہیں، انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے اپنے ہی گھروں میں قیدی بن کر رہ گئے ہیں۔ کشمیر دنیا کی سب سے بڑی جیل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ جہاں زندہ انسانوں ہے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جا رہا ہے۔ بھارتی مظالم پر دنیا بھر میں خاموشی ہے۔ مظلوم کشمیریوں کا خون عالمی امن کے نام نہاد دعویداروں اور دنیا میں امن قائم رکھنے کے لیے تقریریں کرنے والوں کا منہ چڑا رہا ہے۔ بڑھ بڑھ کر انسانیت کا درس دینے والوں کی زبانیں کو بھی تالے لگے ہوئے ہیں۔ کسی کو فکر نہیں ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں انسان قید ہیں، ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں لیکن کوئی بھی مظلوم کشمیریوں کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہے۔
یوم الحاق کشمیر کے موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ آج کے دن کشمیریوں نے پاکستان سے الحاق کی قرارداد منظور کی تھی۔ آج کشمیری عوام کی حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد میں ساتھ دینے کاعزم دہراتا ہوں۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کا حق خودارادیت اقوام متحدہ اور عالمی قوانین سے تسلیم شدہ ہے۔ پاکستان کشمیری عوام کے حصول انصاف کی لڑائی میں ان کے ساتھ ہے۔ کشمیریوں کو ایک دن ضرور انصاف ملے گا۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ پاکستان نے ہر موقع پر کشمیریوں کا ساتھ دیا ہے۔ ان کے حق خودارادیت کی حمایت کرتے ہوئے ہر فورم پر آواز بلند کی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں دنیا کے سامنے کشمیریوں کا مقدمہ بہترین انداز میں پیش کیا مہذب دنیا میں امن کا راستہ اپناتے ہوئے گفتگو اور بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی اس سے بہتر کوشش نہیں ہو سکتی لیکن کرفیو اور لاک ڈاؤن کو ایک برس مکمل ہونے والا ہے اس دوران کشمیریوں کی مدد کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں ہوا۔ خون مسلم اتنا ارزاں تو کبھی نہیں تھا۔ کشمیر کے مظلوموں کی شنوائی صرف اس لیے نہیں کیونکہ وہ مسلمان ہیں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ کشمیر میں ہندوؤں کے مظالم کے خلاف متحد ہو سکیں۔ یہ سارا ظلم صرف اور صرف کلمہ پڑھنے کی سزا دی جا رہی ہے اور اس سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ایک اللہ کو ماننے والے نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر یقین رکھنے والے مسلمانوں کے پاس اپنے کلمہ گو بھائیوں پر ہونے ظلم و ستم کے خلاف بولنے کے لیے نہ وقت ہے نہ ہمت و جرات ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ مسئلہ بات چیت سے حل نہیں ہو سکتا لیکن پھر بھی کوئی بولنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ کشمیر کا مسئلہ صرف اور صرف شمشیر سے ہی حل ہو گا۔ یہ مسئلہ ہندو کی مذمّت نہیں بلکہ اس کی مرمت سے ہی حل ہونا ہے۔ اس کے باوجود تمام مسلم ممالک خاموش ہیں وہ کشمیریوں کی زبانی حمایت کرنے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتے ہیں۔ پاکستان کو بھی یہ دیکھنا چاہیے کہ کشمیر کے مسئلے پر کس حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ پہلے بھی کوئی شک نہیں تھا کہ بھارت باتوں سے نہیں مانے گا لیکن پانچ اگست دو ہزار انیس کے بعد تصدیق ہو چکی ہے کہ نریندرا مودی کے متعصب اور ہندوتوا کے دور میں کشمیریوں کو بات چیت سے ریلیف ملنا ممکن نہیں ہے۔
وزیراعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر نے کل جماعتی حریت کانفرنس کے زیر اہتمام خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد میں لکھا ہے کہ کشمیریوں کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق ہونا چاہیے۔ کشمیر کی عوام کا پاکستان کے ساتھ مذہبی اور ثقافتی الحاق ہے، لیکن موجودہ پالیسی کے مطابق آپ سات سو سال بھی لگے رہیں مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو سکتا۔ راجا فاروق حیدر کے قائدین نے جو بنیادیں رکھی ہیں ان سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کتنے سو سال تک حل نہیں ہو سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ کشمیریوں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے اب پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ راجا فاروق حیدر یاد رکھیں کہ پاکستانی بھی اپنا فرض نبھا رہے ہیں۔ کشمیریوں کی غیر مشروط حمایت آج بھی جاری ہے۔ کاش کہ وہ اس وقت بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار فرماتے جب ان کے سیاسی رہنما حکومت میں تھے اس وقت تو نریندرا مودی بغیر ویزے کے پاکستان پہنچ جاتے تھے آج وہی نریندرا مودی کشمیریوں کے خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔ ایسے دوہرے رویوں کی وجہ سے ہی کشمیر کے مقصد کو نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان کو بہرحال کشمیریوں کی آزادی کے لیے آخری حل پر ضرور کام کرنا چاہیے یہ بات طے ہے کہ اس کا حل بات چیت سے کبھی نہیں ہو گا۔ بنیادی طور پر یہ کسی جگہ نہیں بلکہ دو مذاہب کے مابین جنگ ہے۔ کافروں سے کبھی بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔
مسلم لیگ کو متحد کرنے کی کوششیں پھر سے شروع ہو رہی ہیں۔ متوالے نئے سفر کی تیاری ہر ہیں۔ یہ پیغام واضح انداز میں سب کو پہنچ چکا ہے کہ مستقبل میں کسی بھی مسلم لیگ کے لیے اقتدار تک پہنچنا اس وقت تک ممکن نہیں ہو گا جب تک کہ صرف پاکستان کے فلسفے کو نہیں اپنایا جائے گا۔ مستقبل میں وہی جماعتیں اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہونگی جو صرف پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے کام کریں گی۔ یقیناً یہ معیار صرف مسلم لیگ ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ہو گا۔ چونکہ مسلم لیگ کے دھڑے زیادہ ہیں اس کی شاخیں زیادہ ہیں اور تعداد کے اعتبار سے زیادہ سیاست دان مسلم لیگ سے جڑے ہیں اس لیے مسلم لیگ کے لیے یہ فارمولا مسلم لیگ کے لیے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے مسلم لیگ ن کے اراکین اب دائیں بائیں ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی سے بھی رابطے میں ہیں آنے والے دنوں میں اس حوالے اہم تبدیلیاں بھی متوقع ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ کو سب سے زیادہ مسائل ہونگے کیونکہ عددی اعتبار سے سب سے زیادہ افراد انہی کے پاس ہیں ان کی قیادت کو مقدمات اور ریفرنسز کا سامنا ہے اس کے ساتھ قومی سلامتی کے معاملے پر میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے قومی اداروں کے ساتھ شدید اختلافات کی وجہ سے ان سب کا سیاسی مستقبل شدید خطرات کی زد میں ہے۔ اس نئی پیشرفت سے ن لیگ کے ٹوٹ پھوٹ کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن