سائبیریا میں پڑنے والی شدید گرمی کی لہر موسمیاتی تبدیلیوں کے بغیر تقریباً ناممکن تھی۔ جاپانی ذرائع ابلاغ کے مطابق مختلف ممالک کے سائنسدانوں نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ رواں سال کی پہلی ششماہی میں سائبیریا میں پڑنے والی شدید گرمی کی لہر موسمیاتی تبدیلیوں کے بغیر تقریباً ناممکن تھی۔ سال کے پہلے چھ مہینوں کے دوران سائبیریا کا اوسط درجہ حرارت 1980 سے 2010 کے دوران ریکارڈ کیے گئے اسی مدت کے درجہ حرارت سے 5 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ تھا۔سائبیریا کے قصبے ورخویانسک میں 20 جون کو درجہ حرارت 38 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ باور کیا جاتا ہے کہ قطب شمالی کے دائرے کے کسی بھی علاقے میں یہ ریکارڈ بلند درجہ حرارت ہے۔برطانیہ، ہالینڈ، روس اور دیگر ملکوں کی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں نے عالمی حدت کے اثرات کا تعین کرنے کی غرض سے مشاہداتی نمونے استعمال کرتے ہوئے تجربات کیے ہیں۔ سائنسدانوں نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بغیر والی دنیا میں سائبیریا کی طول پکڑتی گرمی کی لہر ہر 80 ہزار سال بعد کے عرصے میں صرف ایک بار سے بھی کم رونما ہوتی۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر موسمیاتی تبدیلی جاری رہی تو سائبیریا میں سنہ 2050 تک درجہ حرارت میں مزید کم سے کم 0.5 ڈگری اور ممکنہ طور پر زیادہ سے زیادہ تقریباً 5 ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سائبیریا میں منجمد زیرِ زمین سطح کے پگھلنے سے وہاں جمع میتھین گیس خارج ہونے سے جنگلوں میں آگ لگنے کے مزید واقعات ہو سکتے ہیں اور گرین ہاوس گیسوں کی مقدار مزید بڑھ سکتی ہے۔ سائنسدانوں کی ٹیم نے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف فوری اقدام کا مطالبہ کیا ہے۔ ٹیم کے اراکین میں سے ایک یونیورسٹی آف آکسفورڈ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر فریڈرک اوٹو نے نشاندہی کی ہے کہ جاری موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ لوگوں کو ایسے مقامات پر گرمی کی لہر کے لئے تیار رہنا پڑے گا جہاں انہوں نے ایسی صورتحال کی کبھی بھی توقع نہیں کی ہو گی۔