افغانستان سے امریکی اور اتحادی فوجوں کے انخلا کا سلسلہ جاری ہے اور افغانستان میں حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ کشیدہ تر ہوتے جارہے ہیں جن پر قابو پانے میں افغان حکومت بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی اور نائب صدر امراللہ صالح اپنی ناکامی اور کمزوری چھپانے کے لیے پاکستان پر الزام تراشی کررہے ہیں اور مختلف ہتھکنڈے استعمال کر کے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اپنے ان رویوں سے افغان حکام اس حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے کہ افغانستان میں قیام امن اور افغان امن عمل کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے جن ممالک نے سب سے زیادہ کردار ادا کیا ان میں پاکستان سر فہرست ہے۔ امریکی اور اتحادی فوجوں کے مکمل انخلا کے بعد بھی حالات معمول پر رہ سکتے تھے لیکن افغان حکومت اور بعض بیرونی عناصر نے کچھ ایسے اقدامات کیے جن کی وجہ سے حالات بگڑنا شروع ہوگئے اور آج صورتحال یہ ہے کہ افغان حکومت عملی طور پر معطل ہوچکی ہے اور طالبان یکے بعد دیگرے ملک کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرتے جارہے ہیں۔ افغان حکومت آج بھی ان بگڑے ہوئے حالات کو سدھار کی طرف لے کر جاسکتی ہے لیکن اس کے لیے اسے مثبت رویہ اختیار کرتے ہوئے تمام امن دشمن عناصر سے قطع تعلق کر کے افغانستان کے امن و استحکام پر توجہ دینا ہوگی۔
اس سلسلے میں افغانستان کو پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی بھی ضرورت ہے لیکن یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ افغان حکومت جو کچھ کررہی ہے اس سے تعلقات بہتر ہونے کی بجائے بگاڑ کی طرف جانے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ اتوار کو اشرف غنی نے اسلام آباد میں افغان سفیر نجیب اللہ علی خیل کی بیٹی سلسلہ علی خیل کے مبینہ اغوا کو بہانہ بنا کر پاکستان سے اپنے سفیر اور سفارتی عملے کو واپس بلانے کا اعلان کردیا۔ اس حوالے سے امراللہ صالح نے سماجی رابطے کی ویب گاہ ٹوئٹر پر لکھا کہ افغان سفیر کی بیٹی کا اغوا اور اس پر تشدد نے ہماری قوم کی روح کو زخمی کر دیا ہے۔ ادھر، افغان وزارتِ خارجہ نے ٹوئٹر پر ہی جاری ایک بیان میں کہا کہ سفارتی عملہ اس وقت تک پاکستان واپس نہیں جائے گا جب تک افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا میں ملوث افراد کو سزا اور سفارت کاروں کے تحفظ کے لیے اقدامات نہیں کیے جاتے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جلد ہی ایک افغان وفد تمام متعلقہ امور کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان کا دورہ کرے گا۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے سفارتی عملے کو واپس بلانے کے فیصلے اور افغان وزارتِ خارجہ کے بیان کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر معاملے کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی جارہی ہیں۔
افغان حکومت کے اس فیصلے پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ اسلام آباد سے افغان سفیر کی بیٹی کو اغوا نہیں کیا گیا اور میڈیا میں چلنے والی لڑکی کی تصاویر جعلی ہیں۔ لڑکی اپنی مرضی سے گئی تھی، وہ مان نہیں رہی لیکن ہمارے پاس فوٹیجز ہیں۔ ایک فوٹیج ڈھونڈ رہے ہیں وہ مل جائے تو سب کچھ سامنے آجائے گا۔ اس سلسلے میں تھانہ کوہسار میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ کڑیوں سے کڑیاں ملا رہے ہیں، جلد یہ گتھی سلجھ جائے گی۔ وزیراعظم نے اس کیس کو جلد از جلد حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ادھر، وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت بنی گالہ میں اہم اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزرا اور اعلیٰ سکیورٹی حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں تحقیقات مکمل ہونے سے قبل ہی افغان سفیر کی واپسی کے اعلان کا جائزہ لیا گیا۔ سفیر کی واپسی سے متعلق پاکستانی دفتر خارجہ کے موقف سمیت تمام اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ علاوہ ازیں، سرحدی صورتحال اور داخلی سکیورٹی سمیت اہم فیصلے کیے گئے۔ اجلاس کے دوران افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغواکے درپردہ حقائق تک پہنچنے کا فیصلہ کیا گیا۔ سکیورٹی حکام نے وزیراعظم کو افغان سفارت کاروں کی سکیورٹی مزید سخت کرنے سے متعلق آگاہ کیا ۔
بھارت اس معاملے کو اچھال کر پاکستان کو بدنام کرنا چاہتا ہے لیکن یہ حقیقت جلد ہی بے نقاب ہو جائے گی کہ اس واردات کے پیچھے بھارت اور افغانستان کے امن دشمن عناصر ہی ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے تشکیل دی جانے والی تفتیشی ٹیم اپنا کام کررہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق، تفتیشی ٹیم نے افغان سفیر اور ان کی بیٹی سے ملاقات بھی کرچکی ہے جس میں وقوعہ سے متعلق سوالات کیے گئے۔ افغان سفیرکی بیٹی نے تفتیشی ٹیم کے کسی بھی سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکی۔ سلسلہ علی خیل کے بیان پر کیمرے چیک کر کے نقشہ بنا لیا گیا ہے اور اسے ڈراپ کرنے والی گاڑی کی شناخت کرلی گئی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ افغان سفیرکی بیٹی نے تفتیشی ٹیم کو بتایا تھا کہ اغواکار اس کا موبائل فون لے گئے ہیں جبکہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے پتا چلا کہ موبائل لڑکی کے پاس ہی ہے۔ تفتیش کے سلسلے میں اگلے روز اس کا موبائل تحویل میں لیا گیا تو وہ موبائل فون سے اپنا ڈیٹا ڈیلیٹ کرچکی تھی۔ تفتیشی ٹیم کی طرف سے ان تمام علاقوں کی جیو فینسنگ مکمل کرلی گئی جہاں افغان سفیر کی بیٹی گئی تھی۔
پوری صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ سلسلہ علی خیل کا مبینہ اغوا پاکستان کو بدنام کرنے کی ایک سازش کے سوا کچھ بھی نہیں جس کے تمام کردار جلد ہی بے نقاب ہو جائیں گے۔ افغان حکومت اس واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بگاڑ کر اپنے مسائل میں اضافہ کررہی ہے۔ امریکی انتظامیہ بھی اس بات کی قائل ہے کہ افغان امن عمل کے سلسلے میں نہ تو پاکستان کی کوششوں کو فراموش کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی پاکستان کے تعاون کے بغیر افغان امن عمل کی تکمیل ممکن ہے۔ افغان حکام کو چاہیے کہ بھارت سمیت کسی بھی ایسے ملک کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں جو اپنے مذموم مقاصد کے تحت پورے خطے کے امن و استحکام کو خطرے میں ڈالنے کے لیے ریشہ دوانیاں کررہا ہے۔
افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا کی سازش
Jul 20, 2021