20 سال بعد امریکہ کی افغانستان سے رخصتی

امریکہ نے 20 سال کی طویل ترین جنگ کے بعد بالاآخر افغانستان میں اپنا سب سے بڑا ہیڈ کوارٹر بگرام ائربیس خالی کر دیا۔ یہ ائربیس 42 سال قبل سوویت یونین نے بنایا تھا جب روسی فوجیں افغانستان پر 1979ء میں حملہ آور ہوئی تھیں بگرام ائربیس 1990ء میں طالبان حکومت کے پاس تھا اور 2001ء میں طالبان حکومت پر امریکی حملے کے بعد امریکہ نے افغانستان کے بگرام ائربیس کو اپنا ہیڈکواٹر بنا لیا تھا۔
یہ ائربیس کسی چھوٹے شہر کے برابر ہے جس کا مجموعی رقبہ 45 مربع کلومیٹر ہے۔ 20 سال کے دوران امریکہ نے بگرام ائربیس پر دو طویل رن وے تعمیر کئے اور ریڈار بنائے۔ اسکے ایک رن وے کی لمبائی 3.6 کلو میٹر ہے۔ اس ائربیس پر دس ہزار فوجیوں کی کنٹینر قیام گاہیں تعمیر کی گئیں جنہیں امریکی فوجی تباہ کر گئے ہیں اسکے اندر امریکہ نے بہت بڑی جیل بھی بنا رکھی تھی جہاں طالبان سمیت مختلف ممالک کے شہریوں کو قید کر کے بدترین ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اس جیل میں اب بھی پانچ ہزار کے قریب طالبان قیدی موجود بتائے جارہے ہیں۔ اسے امریکہ کی بدنام زمانہ جیل گوانتا موبے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔بگرام ائر بیس پر 20 سال کے دوران امریکی فوجیوں نے اندر ہی اندر اور زمین دوز نجانے کیا کیا تنصیبات قائم کر رکھی تھیں جن کے ابھی انکشافات ممکن نہیں ہیں کیونکہ اسکے درجنوں دروازے الیکٹرونک ہیں جن کے پاسورڈ کوڈ امریکی فوجی جاتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے ہیں اْن کو کھولنا یا ٹوڑنا ابھی افغانیوں یا طالبان کے بس سے باہر ہے۔ امریکی غاصب فوجی بگرام ائر بیس کو چھوڑنے سے قبل کھنڈر کا ڈھیر بنا گئے ہیں جو جنگی مشینری ٹینک توپ ہیلی کاپٹر وہ لے جا سکتے تھے وہ لے گئے اور باقی موجود فوجی گاڑیوں، ٹینکوں سے لیکر کمپیوٹر ، الیکٹرونکس تباہ کر گئے حتی کہ اپنے اضافی جوتے تک پھاڑ کے پھینک گئے کہ کوئی اور استعمال نہ کر سکے۔ ائر بیس کو بجلی فراہم کرنے والا بہت بڑا جنریٹر بھی بند پڑا ہے جس سے پورا بگرام ائر بیس تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے افغانی اس جنریٹر کو چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔بگرام ائر بیس پر صرف پچاس بیڈ کے ایک ہسپتال کو کارآمد چھوڑا گیا ہے۔
بگرام ائر بیس افغانستان کے دارالحکومت کابل سے 40 کلومیڑ دور وہاں کے گائوں بگرام کے نام سے موجود ہے۔ اس ائر بیس پر 110 جنگی اور بڑے کارگو ہوائی جہاز لینڈ کر سکتے ہیں جن کی حفاظت کے لیے پارکنگ بھی کنکریٹ کے محفوظ بلاک سے بنائی گئی ہے۔
امریکہ اور طالبان کی بیس سال تک جاری رہنے والی اس جنگ میں بی بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق تقریباً 71 ہزار افغان شہری جانوں سے گئے۔68 ہزار کے قریب افغان فوجی جاں بحق ہوئے ، امریکی اور نیٹو فورسسز کے 35 سو کے قریب فوجی مارے گئے بیس ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ 38 سو کے قریب امریکیوں کے پرائیویٹ سیکورئی اہلکار اور کنٹریکٹرز کی زندگیاں ختم ہوہیں۔ 84 ہزار طالبان فوجی جاں بحق ہوئے 27 لاکھ افغان شہری دوسرے ملکوں میں ہجرت کرگئے اور 32 لاکھ کے قریب افغانی اپنے ہی ملک میں دربدر ہو گئے۔ امریکہ نے بظاہر 1.43 کھرب ڈالر افغانستان کی تعمیر نو پر خرچ کئے۔ اس جنگ میں امریکی اخراجات کی لاگت کا 22.6 کھرب ڈالر کا جو تخمینہ لگایا جا رہا ہے اس کا زیادہ حصہ بھی امریکی اور اتحادی فوجیوں کی تنخواہوں ، رہائشوں ، کھانے پینے اور ٹرانسپورٹ پر خرچ ہوا ہے۔البتہ امریکی قیام کے دوران بگرام ائر بیس مقامی افغان آبادی کے لیے بہت بڑے واحد روزگار کا باعث ضرور تھا جو ائر بیس پر موجود ہزاروں فوجیوں کی خوراک اور دیگر مقامی اشیاء ضروریہ کی فراہمی کے لیے ائر بیس کے ہوٹل اور باربی کیو پوائنٹس پر سامان مہیا کرتا تھا۔بگرام ائر بیس کے خالی ہونے سے وہاں کے ہزاروں مقامی لوگ بْری طرح سے بے روزگار ہو گئے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے اعلان کے مطابق امریکی فوجی 11 ستمبر تک مکمل طور پر افغانستان خالی کر دینگے لیکن امریکی سفارت خانے کی حفاظت اور کابل کے انٹرنیشنل ائرپورٹ کو خانہ جنگی سے محفوظ رکھنے کے لیے ساڑھے چھ سو امریکی فوجیوں کے کابل میں رہ جانے کے ہی امکانات ہیں۔ گزشتہ دنوں بھی امریکہ نے افغان حکومت کو طالبان کے خلاف جنگی طاقت بڑھانے کے لیے 37 بلیک ہاک ہیلی کاپٹر 3 سوپر اسٹرائیک ائر کرافٹ اور ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر کے پرزے خرید کر دئیے بظاہر امریکہ بیس سال تک طالبان سے لڑنے کے بعد اب جنگ بندی کر کے افغانستان سے نکل چکا ہے لیکن درپردہ اب بھی وہ افغان حکومت اور افغان فوج کے ذریعے طالبان سے جنگ جاری رکھے ہوئے ہے اور نائن الیون سے امریکہ کو جو اپنی سلامتی کی سیکورٹی لاحق ہو گئی تھی وہ اس کا تدارک کر کے باہر نکل چکا ہے اب خانہ جنگی میں مبتلا کمزور افغانستان اور اس کے خانہ جنگی حالات سے نبزد آزما بعض مسلم ہمسایہ ملکوں سے امریکہ کو اب کوئی خطرہ لاحق نہیں کیونکہ وہ بیس سالوں تک ان کے درمیان رہ کر اپنے سینکڑوں ہدف پورے کر چکا ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن