شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں وزیراعظم ایک بار پھر اسی طرح دنیا کی توجہ کا مرکز بنے جس طرح گذشتہ سے پیوستہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے دبنگ خطاب کے باعث بنے تھے۔ جہاں انہوں نے بھارتی صحافی جو سرکاری ایجنسی اے این آئی کا رپورٹر اسے اسکے اس سوال پر جھڑک دیا کہ امن اور دہشتگردی ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔ جبکہ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی دونوں نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے ساتھ ہاتھ نہ ملا کر بھارت کی مزید سبکی کا سامان کر دیا۔ عمران خان نے بھارتی صحافی کو جواب دیا کہ ہم تو بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں مگر کیا کریں درمیان میں آر ایس ایس کی سوچ آ جاتی ہے۔ آر ایس ایس بھارت کی ہندو شدت پسند تنظیم ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی اس انتہا پسند تنظیم کا بچپن سے رکن ہے (اور یاد رہے کہ اس تنظیم کو جرمن کی نسلی تعصب پسند تنظیم آر ایس ایس سے تشبیہ دی جاتی ہے یہ وہ تنظیم جس نے یورپ میںیہودی اقلیت کا قتلِ عام کیا تھااور ایڈولف ہٹلر کو اس کابانی تصور کیا جاتا ہے) ۔ عمران خان کے بجائے کوئی بھی پاکستانی وزیراعظم ہوتا بھارت کے حوالے سے ایسا رویہ اختیار کرنے پر اسے پاکستان میں ایسی ہی پذیرائی ملنی تھی۔ ادھر اشرف غنی بھی اس اجلاس میں اپنے وزیر خارجہ کے ساتھ موجود تھے دونوں نے اتنے اعلیٰ عہدوں پر ہونے کے باوجود محض اپنے اقتدار اور مفادات کی خاطر سفید جھوٹ بولا۔ اشرف غنی بغیر ثبوت اور شواہد کے کہتے رہے کہ پاکستان نے دس ہزار جنگجو افغانستان میں داخل کر دیئے۔ وزیر خارجہ امر صالح نے کہا کہ پاک فضائیہ کے سربراہ نے دھمکی دی ہے کہ اگر افغان حکومت نے طالبان کے مقبوضہ علاقوں خصوصی طور پر سپن بولدک پر فضائی حملہ کیا تو پاکستان اس کا جواب حملے سے دیگا۔ ایسی دھمکی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عمران خان نے ان دونوں کو بھی ترکی بہ ترکی جواب دیکر شرمندہ کیا۔ افغان حکمرانوں کے ہاتھوں سے افغانستان نکل رہا ہے۔ طالبان آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ میں طالبان کا حامی نہیں ہوں۔ مجھے طالبان پر دو کتب تصنیف کرنے پر پاکستان اور عالمی سطح پر ہراساں کیا گیا ۔ لاہور میں میرے بچوں کو دھمکایا گیا جنہیں مجبوراً سکول چھوڑنا پڑا اور اسکی پاداش میں مجھے بچوں کو کینیڈا شفٹ کرنا پڑ گیا۔مگر سچ یہی ہے کہ طالبان سے اب اقتدار زیادہ دور نہیں ہے۔
اشرف غنی حکومت فرسٹریشن کا شکار ہو کر پاکستان کے خلاف الزامات لگا رہی ہے جس سے حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ ادھر پاکستان نے امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کیا تو وہ بھی تائو کھا رہا ہے مگر پاکستان جھکنے پر آمادہ نہیں۔ افغانستان میں امن قائم ہوتا ہے تو بھارت کی پاکستان میں دہشتگردی کرانے کی سازشیں دم توڑ جائیں گی۔ لہٰذا یہ تکون پاکستان کے خلاف کچھ بھی کر سکتی ہے۔ ماڈل ٹائون دھماکہ کے بعد داسوڈیم کی گاڑی پر حملہ میں 9چینی بھی 5 پاکستانیوں کے ساتھ مارے گئے۔ ادھر افغان سفیر کی بیٹی کے اغواکا اسلام آباد ڈرامہ بھی پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے رچایا گیا۔ اس لڑکی کی طرف سے دس کی دس باتیں ایک دوسری کے متضاد ہیں۔ یہ ڈرامہ بازی اور اسکے پس پردہ حقائق ٹرائیکا کی سازش کو بے نقاب کرینگے ۔ سفیر کی بیٹی ہو اور وہ ٹیکسی میں سفر کرے جو فون کرکے منگوائی گئی ہو۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا جائے کہ اسکے پاس موبائل ہی نہیں تھا۔ جھوٹ خود کہہ رہا ہے کہ میں جھوٹ ہوں۔پاکستان اس وقت شدید عالمی دبائو کا شکار ہے۔کچھ دیدہ اور نادیدہ قوتیں پاکستان کی سالمیت کے درپے ہیں۔ان حالات میں ہم پاکستانیوں کا ہدف عمران خان کی وزارتِ عظمی نہیں ہونا چاہیے۔ملکی سلامتی کسی بھی پاکستانی کیلئے عظیم مقصد کی طرح نشان منزل ہونا چاہیے۔میں بحیثیت چیئرمین پنجاب نیشنل پارٹی اور ہماری پوری پارٹی سلامتی کو درپیش خطرات کے پیش نظر عمران خان حکومت اور پاکستان کی سلامتی کے ادارے اورپاک فوج کے ساتھ غیرمشروط طور پر تعاون کی یقین دہانی کراتے ہیںکیونکہ بحیثیت پاکستانی سب سے پہلے پاکستان کی سالمیت ہمارا مقصد ہونا چاہیے۔قارئین!جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے اس وقت کینیڈا، امریکہ اور یورپ میں عیدالاضحی مذہبی جوش وخروش سے منائی جا رہی ہو گی۔میری طرف سے اور پنجاب نیشنل پارٹی کی طرف سے نوائے وقت کی ایڈیٹر انچیف محترمہ رمیزہ مجید نظامی صاحبہ اور انکی پوری ٹیم اور ادارہ نوائے وقت کے تمام لکھنے اور پڑھنے والوں کو عید مبارک کی خوشیاں قبول ہوں۔اللہ کرے کہ عالمی سازشوں کے اس ماحول میں میرا پاکستان سروخر و ، سلامت اور ہمیشہ آباد رہے۔قارئین!