نذرِ جفا

جو جفا پیشہ ہو وہ نذرِ جفا ہوتا ہے
بہرِ فرعون بھی قانونِ سزا ہوتا ہے 
بات تو جب تھی کہ زْلفوں کی گھٹا میں جیتے 
عشق کی آگ میں جل جانے سے کیا ہوتا ہے 
میں نے تو ایک بھی بندہ نہ خدا کا دیکھا 
اب مرے شہر میں ہر شخص خدا ہوتا ہے 
کاسہ فقر سے بڑھ کر کوئی  کا سہ ہی نہیں 
یہ گدا وہ ہے کہ جو رشکِ گدا ہوتا ہے 
دل مرا مجھ سے جدا رہتا ہے تا شامِ فراق
لمحہ وصل میں بھی مجھ سے جدا ہوتا ہے 
مْحتسب ہم بھی کریں تیری خطاؤں کا حساب
کیا ترا فیصلہ بے جْرمِ و خطا ہوتا ہے ؟
جعفری حرفِ جنوں کہنے کو ہم ہیں باقی
بر سرِ دار بھی لب شعلہ نوا ہوتا ہے 
(ڈاکٹر مقصود جعفری )

ای پیپر دی نیشن