مولانا حافظ زبیر حسن
’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے حج کرے اور اس میں بری باتیں اور برے کام نہ کرے تو وہ حج کرکے اسی طرح لوٹتا ہے گویا کہ آج اس کی ماں نے اسے جنا۔‘‘ (متفق علیہ)حج کی حقیقت ہی یہی ہے کہ خدا کی رحمتوں اور برکتوں کے نازل ہونے کی جگہ میں حاضری دینا، حضرت ابراہیمؑ کی طرح اللہ کی دعوت پر لبیک کہنا اور اس عظیم الشان قربانی کی روح کو زندہ کرنا، ابراہیم ؑ واسماعیل ؑ جیسی برگزیدہ بندوں کی پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے تسلیم ورضا، فرمانبرداری اور اطاعت کے ساتھ اپنی گردن جھکا دینا۔ اس بندگی کے طریقے کواسی طرح بجالانا جس طرح وہ ہزاروں برس پہلے بجالائے اور خدائی نوازشوں اور بخششوں سے مالا مال ہوئے یہی ملت ابراہیمی اور یہی حقیقی اسلام ہے ،یہی روح اور یہی باطنی احساس ہے ۔جس میں ابتدائی دور کی طرح بغیر سلے ہوئے کپڑے پہنتے ہیں، اپنے بدن اور سر کے بال نہ منڈواتے ہیں نہ کٹواتے ہیں، نہ خوشبو لگاتے ہیں نہ رنگین کپڑے پہنتے ہیں‘ نہ سر ڈھانپتے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے بیت اللہ میں حاضر ہوکر پکارا۔
{لبیک اللھم لبیک ، لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک۔} ترجمہ’’میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ سب خوبیاں اور سب نعمتیں تیری ہی ہیں اور سلطنت تیری ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘
آج ان تمام حاجیوں کے زبانوں پر وہی تین چار ہزار سال پہلے کے کلمات جاری ہوجاتے ہیں۔ یہ توحید کی صدا ان تمام مقامات اور بلند گھاٹیوں میں بلند کرتے ہیں جہاں ان دونوں نیک بندوں کے نقش قدم زمین پر پڑے۔ پھر اسماعیل ؑ کی والدہ محترمہ حضرت ہاجرہؑ نے پانی کی تلاش میں صفاو مروہ کے درمیان چکر لگائے آج حاجی وہاں سعی کرتے ہیں چلتے ہیں مخصوص جگہ میں دوڑتے ہیں، دعا کرتے ہیں گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں۔ عرفات کے بڑے میدان میں جمع ہوکر اپنی گذشتہ عمر کے گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی چاہتے ہیں‘ خدا کے حضور گڑگڑاتے روتے ہیں، اپنے قصور معاف کرواتے ہیں، اور وہاں وعدہ کرتے ہیں آئندہ زندگی میں اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کا عہد کرتے ہیں اسی وقوف عرفات کو حج کا بنیادی رکن کہتے ہیں یہ تاریخی میدان دعا کے مقامات، لاکھوں بندگان خدا کا ایک وحدت کے رنگ میںایک لباس، ایک ہی جذبہ میں سرشار ، ایک بے آب و گیاہ ، خشک میدان ، پہاڑوں کے درمیان دعا ومغفرت کی پکار گذشتہ عمر کی کوتاہیوں اور بربادیوں پر آہ وزاری ، اپنی بدکاریوں کا اقرار ، بڑے بڑے شقی القلب لوگوں کے دل موم کی طرح پگھلنے لگتے ہیں۔ پھر اس پاکیزگی کے بعد یہ احساس کہ یہی وہ مقام ہے جہاں ابراہیمؑ سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک بہت سے انبیاء اسی حالت اور اسی صورت میں اسی جگہ کھڑے ہوئے تھے۔ ایسا روحانی منظر، ایسا کیف، ایسا اثر، ایسا گداز، ایسی تاثیر پیدا کرتا ہے جس کی مٹھاس روح اور جسم کی تار تار اور نس نس میں رچ بس جاتی ہے۔ پھر حاجی قربانی کرتے ہیں۔ ارشاد نبوی ؐکے مطابق اپنے باپ ابراہیمؑ کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔
اور پھر یہ کہتے ہیں ’’ میں نے موحد بن کر ہر طرف سے منہ موڑ کر اس کی طرف منہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ اور میں شرک کرنے والوںمیںسے نہیں‘‘(الانعام آیت۷۹)
پھر حاجی یہ اقرار کرتا ہے۔
’’میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو تمام دنیا کا پروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور یہی حکم مجھے ہوا ہے، اور میں سب سے پہلے فرمانبرداری کا اقرار کرتا ہوں۔‘‘ (الانعام آیت۱۶۲۔۱۶۳)حج بیت اللہ کی ان تمام کیفیات کو سمیٹ کرلانے والا یقینا ارشاد نبویؐ کے مطابق ایسا ہوتا ہے گویا ابھی جنم لیا ہو۔اللہ تعالیٰ ہمیں حج بیت اللہ ادا کرنے کی سعادت اور پھراس کی برکات سے مستفیض فرمائے۔
٭٭٭
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛