صدر صاحب کی ’’وکٹری اسپیچ‘‘ بہت متاثر کُن تھی۔ کچھ یوں گمان ہوتا تھا کہ اُن سے بڑھ کر کوئی جمہوریت کا شیدا اس ملک میں پیدا نہیں ہوا۔
I am also grateful to those who differed with me. They too served the cause of democracy.
یہ شبد دراصل بیرونی دنیا کے لیے تھے۔ اِدھر جمہوریت کا بھاشن دیا جا رہا تھا تو اِدھر کراچی میں ان کا ’’پرنس آف ویلز‘‘ گوہر ایوب اپنے پٹھان گروہ کے ساتھ مخالفین کا ٹیٹوا دبا رہا تھا…ایوب خان نے دس برس تک حکمرانی کی۔ اگر صحت اجازت دیتی تو اقتدار کو مزید طوالت دے سکتا تھا۔ 1965ء کی جنگ کا بھی دل کی رگوں کو کمزور کرنے میں نمایاں حصہ تھا۔ بھٹو اور عزیز احمد کی انگیخت پر جنگ تو چھیڑ بیٹھا لیکن اسے Inconclusive war کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ لعل بہادر شاستری تو تاشقند میں ہی ہارٹ اٹیک کی وجہ سے پرلوک سُدھار گیا۔ ایوب کو کچھ وقت لگا۔ قوم اس معاہدے کو ہضم نہ کر سکی! دوست دست درازی پر اُتر آئے: ’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے!‘‘
چنانچہ اپنے بنائے ہوئے آئین کو پامال کرتے ہوئے اس نے اقتدار C.N.C یحییٰ خان کو سونپ دیا۔ یحییٰ خان نے 1970ء کے انتخابات نیک نیتی سے نہیں کروائے تھے۔ اس کا خیال تھا کہ کوئی پارٹی اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی۔ حکومت سازی کی اس کشمکش میں اسے اقتدار کو طوالت دینے کا جواز مل جائے گا۔ شیخ مجیب کو اکثریت تو مل گئی لیکن اقتدار منتقل نہ ہوا۔ چونکہ مغربی حصے میں بھٹو کو اکثریت مل گئی تھی۔ اس لیے اس نے ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ کا نعرہ لگا دیا۔ اقتدار منتقل نہ ہونے پر خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ ہندوستان نے موقعہ سے فائدہ اٹھایا نتیجتاً ملک دولخت ہو گیا…کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بھٹو ٹانگ نہ اُڑاتا تو ملک نہ ٹوٹتا۔ یہ خام خیالی ہے۔ اگر شیخ مجیب کے چھ نکات کو مان لیا جاتا تو پھر ملک پانچ حصوں میں تقسیم ہو جاتا۔ باقی صوبے ، سرحد ، سندھ اور بلوچستان بھی چھ نکات کا تقاضہ کرتے اور ’’وزیر اعظم‘‘ شیخ مجیب بڑی خوشی سے انہیں اختیارات دے دیتا ہو سکتا ہے بھٹو کے مطالبے کے پیچھے ذاتی غرض چھپی ہوئی ہو لیکن استدلال درست تھا۔ ملک ٹوٹنے کے بعد بھٹو مغربی حصے کا وزیر اعظم بن گیا۔ 1973ء کا آئین بھی متفقہ طور پر منظور ہو گیا جو ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ اتنے بڑے سانحہ کے بعد اگر کوئی اختلافی آواز تھی بھی تو دب گئی۔ لیکن صوبوں کو اس بات کا علم نہ تھا کہ دوتہائی اکثریت کے بل بُوتے پر ایک سال کے قلیل عرصے میں ہی آئین کا حُلیہ بگاڑ دیا جائے گا۔
جمہوریت تو آ گئی لیکن حاکموں کا آمرانہ ر ویہ نہ بدلا۔ زندانِ نازیاں کی طرز پر دلائی کیمپ قائم کئے گئے۔ مخالفین کو پابند سلاسل کر دیا گیا کچھ کو تو عالم بالا میں پہنچا دیا گیا۔ غیر تو غیر اپنے بھی ہوسِ حکمرانی کی لپیٹ میں آ گئے۔ جے ۔ رحیم ، مختار رانا ، معراج محمد خان حتیٰ کہ ’’شیر پنجاب‘‘ کھر کی دھاڑ بھی اس کے حلق کی سرنگ میں چند گرداب کھا کر دم توڑ گئی۔
ویسے ذوالفقار علی بھٹو ایک بیدار مغز حکمران تھا۔ کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتا تھا۔ ایک بنیادی غلطی کر بیٹھا۔ اپنی مقبولیت کے زعم میں قبل از وقت انتخابات کروا بیٹھا…ہرچہ بادا باد ہو گیا۔ پارٹی کے پردھانوں نے اسے نعمت سمجھتے ہوئے دھاندلی کی ہر حد عبور کر لی۔ نتیجتاً اپوزیشن نے نتائج قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک بہت بڑی تحریک نظام مصطفی چلی جو مارشل لاء کے نفاذ پر منتج ہوئی۔ ضیاء الحق مارشل لاء لگا کر ملک کے سیاہ سفید کا مالک بن گیا۔
شیکسپیئر نے کہا تھا To be thus is nothing than to be safely a thus.
شاہی کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت بھی ضروری ہوتی ہے۔چنانچہ بھٹو کو رخصت کرنا ضروری ہو گیا۔ ایک کبیدہ خاطر جج نے اس کو سرانجام دینے کا بیڑا اٹھایا۔ بالآخر بھٹو کو پھانسی ہو گئی۔ پیپلزپارٹی اس کو اب بھی Judicial Murder سمجھتی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انصاف کے سب تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔ سوال یہ نہیں ہے کہ بھٹو بے گناہ تھا یا قصوروار! تاریخ کے دھاروں کو موڑا نہیں جا سکتا۔ جب سوال your neck or my neck ہو تو پھر سر اس کا قلم ہوتا ہے جو نہتا ہو۔
ضیاء الحق نے طویل عرصہ تک حکمرانی کے بعد محدود پیمانے پر جمہوریت بحال کرنے کا اہتمام کیا۔ غیر پارٹی الیکشن میں پیر پگاڑا کے ایک مرید محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنا دیا، لیکن 58-2-B کی صورت میں کنٹرول اپنے پاس رکھا۔۔۔۔۔ (جاری)