جدیدیت و قدامت کا امتزاج

تیزی سے بدلتے تہذیب و تمدن نے معاشرے پہ بہت سے اثرات مرتب کیے ہیں پچھلی چند دہائیوں میں ہمارا رہن سہن اور طرز زندگی یکسر بدل چکا ہے،جدیدیت(modernism)نے ہمارے قلوب و اذہان کو سر کر لیا ہے اکثر رسوم اور روایتی طرز زندگی فرسودہ قرار پا کر تقریباً بازی ہار چکے جدید   تہذیب اپنی بھرپور چکا چوند اور آب و تاب کے ساتھ حکمرانی کر رہی ہے لیکن اس جدید طرز زندگی نے انسانی معاشرتی و سماجی مسائل میں بیپناہ اضافہ کر دیا ہے۔ میری دانست میں قدیم اور جدید تمدن کا امتزاج ہمارے معاشرتی، معاشی ماحولیاتی مسائل میں کافی حد تک کمی لا سکتا ہے،تمام شعبہ جات کا احاطہ تو ممکن نہیں البتہ کچھ شعبہ ہائے کا تجزیہ ضمن وار  کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔  …طبی خدمات یا طرز علاج:  اس شعبہ پہ رائے دینے سے قبل یہ اعتراف کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جراحت (surgery)  میں مغربی طبی ماہرین بے انتہا تحقیق و تجربات کی بنیاد پر مشرق سے بہت آگے ہیں لہذا جراحت کے شعبے میں موازنہ درست نہیں سرجری کے علاؤہ اکثر امراض میں مشرقی طبی طرز علاج ایلو پیتھی سے کچھ آگے ہی نظر آتے ہیں۔ تاہم اشتہار بازی کے زور پہ کھربوں ڈالر کی فارماسیوٹیکل انڈسڑی کا مقابلہ کرنا دیسی حکمائ￿  و دواسازوں کیلیے ممکن نہیں رہا جس کے باعث دیسی ادویات کی طرف رغبت تقریباً ختم ہو چکی ہے اور یہ شعبہ اپنا وجود برقرار رکھنے کی جدوجھد تک ہی محدود ہو چکا ہے۔دونوں طرز علاج کے مابین مسابقت میں بھی جانبدارانہ رویہ روا ہے۔  حکماء کو بیشمار پابندیوں اور سخت قوانین کا سامنا ہے اس کے برعکس ایلوپیتھی  کو بیشمار سہولیات اور استثنائیں حاصل ہیں، دیسی ادویات کو ترک کرنے کا اثر براہ راست ہماری صحت اور معاشیات پہ پڑا ہے پاکستان 3.8 بلین ڈالر سے زائد کی ادویات درآمد کرتا ہے  مقامی دواساز صنعت کا درآمد کردہ کیمیکل اور مویشیوں کی ادویات اس کے علاؤہ ہیں۔ بھارت نے دیسی ادویات کو سرکاری سرپرستی میں فروغ دیکر نہ صرف بھارت بلکہ بیرونی دنیا میں متعارف کرانے کا کارنامہ سر انجام دیا ہے پتنجلی نامی بابا رام دیو کی  کمپنی کو دو مختلف ریاستوں میں سینکڑوں ایکڑ اراضی صرف دیسی ادویات میں استعمال ہونے والی جڑی بوٹیوں کی کاشت کیلیے الاٹ کی گئی ہے۔ آج بھارت نہ صرف ادویات کی خریداری پہ صرف ہونے والا کثیر زر مبادلہ بچا رہا ہے بلکہ دیسی ادویات و دیگر ہربل  مصنوعات فروخت کر کے اربوں ڈالر کما رہا ہے، اپنے ہمسائے میں اتنی بڑی مثال دیکھ کر ہماری آنکھیں کھلنی چاہیئے۔ ان کے نقش قدم پر چل کر جدید و قدیم کے امتزاج سے عوام کو سستی لیکن معیاری ادویات مہیا کی جا سکتی ہیں۔طب کے ضمن میں شعبہ زچہ بچہ(گائنی ڈیپارٹمنٹ) کا ذکر کرنا ضروری ہے کیونکہ سب سے زیادہ شکایات اسی طرف سے آتی ہیں۔ حاملہ خاتون کا  علم ہوتے ہی گائناکالوجسٹ کے پاس ہر ماہ باقاعدگی سے اپنا معائنہ کرا کے ہزاروں روپیہ فیس و ادویات کی مد میں ادا کرتی ہے لیکن اکثر کیسیز میں بوقت زچگی نارمل ڈیلیوری کو ناممکن قرار دے کر آپریشن کا مشورہ دیا جاتا ہے جس کے اخراجات کا بل کافی بھاری ہوتا ہے، لیکن کوئی محکمہ یا ادارہ پوچھنے کا مجاز نہیں کہ اتنے طویل علاج معالجے اور نگرانی کے باوجود آپریشن کیوں۔ اس صورتحال کا تقابل اگر گلی محلے اور دیہاتوں میں کسی دور میں رہنے والی دائیوں کی مہارت سے کیا جائے جو بغیر کسی ڈگری کے فقط اپنے تجربے کی بناء پر کامیابی سے نارمل ڈیلیوری کرا لیتی تھیں بدلے میں انتہائی قلیل اور معمولی معاوضہ۔ لیکن دائیوں کے اس نظام کو غلط اعداد و شمار اور پروپیگنڈہ کے زور پر خطرناک اور جان لیوا ثابت کر کے غیر قانونی قرار دلوا دیا گیا چاہیے تو یہ تھا ان دائیوں کو کچھ جدید طرز علاج کے کورسز کرا کے ڈپلومے دیے جاتے اور کچھ ان کے تجربہ سے فائدہ اٹھایا جاتا۔ایلوپیتھی طرز علاج کے تمام شعبہ جات کا تقریباً یہی حال ہے۔…نظام انصاف: نظام عدل گستری کا جائزہ لیں تو یہاں بھی صورتحال مختلف نہیں۔ پنچایتی نظام کو replace کرنے والا موجودہ عدالتی نظام (judicial system) اپنے قوانین کی طرز، عدالتوں کی درجہ بندی و نام حتیٰ کہ جج صاحبان اور وکلائ￿  کے لباس سمیت تقریباً تمام امور میں مغربی نظامِ انصاف کی طرز پہ قائم ہے۔انصاف کی فراہمی کیلیے جہاں سرکار کے سالانہ اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں وہاں انصاف کے حصول کیلیے سائلین کا کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے جبکہ حتمی فیصلہ ہونے تک دہائیاں گزر چکی ہوتی ہے مختلف عدالتی نظائر میں خود اعلیٰ عدلیہ نے اسے انصاف کا قتل یا انصاف کی فراہمی سے انکار قرار دیا ہے۔ اس کا بڑا آسان حل یہ ہے فریقین کے وکلاء  اور مقامی آبادی سے متعلقہ تنازعہ کے متعلق ماہر افراد پہ مشتمل جیوری ترتیب دی جائے جو جائے متنازعہ یا امر متنازعہ کی تمام کاروائی موقع پہ جا کریں فریقین کی زبانی و دستاویزی گواہی و فیصلہ اسی دن ہی کرے اگر فریقین جیوری فیصلہ تسلیم کر لیں تو ٹھیک ورنہ عدالت سے رجوع کریں اس صورت میں عدالت کے پاس تمام ریکارڈ موجود ہو گا جس مطالعہ کر کے تسلی سے جانچ پرکھ کے فوری فیصلہ کیا جا سکتا ہے اس طریقے سے قیمتی عدالتی وقت بھی بچایا جا سکتا ہے اور عدالتوں پہ کام کے دباؤ کو بھی کم کیا جا سکتا ہے*طرز تعمیر-*اب اگر تہذیب و تمدن کے ایک اہم ستون یعنی طرزِ تعمیر کا جائزہ لیں تو مغربی طرز  پہ مبنی مکانات و بلند عمارات پرانے سادہ طرز کے مکانوں کی جگہ لے چکے ہیں شہروں اور کمرشل علاقوں میں جگہ کی تنگی کے باعث بلند و بالا کنکریٹ کی عمارتیں مجبوری بن چکی ہیں لیکن ان عمارات میں بے پناہ اضافے نے ماحولیاتی مسائل میں بیپناہ اضافہ کر دیا ہے درخت اور پہاڑ تیزی سے کم ہو رہے ہیں ۔جس سے ماحولیاتی عدم توازن میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے لیکن پاکستان کی غالب آبادی دیہاتوں اور قصبوں میں بستی ہے جہاں آج بھی پرانے طرز تعمیر کو ممکنہ حد تک فروغ دیکر ماربل، کنکریٹ اور دیگر عمارتی درآمدی میٹیریل کا حتیٰ الامکان کم استعمال کر کے جہاں لاگت کئی گناہ کم کی جاسکتی ہے۔
 وہاں ماحولیاتی مسائل میں کمی بھی لائی جا سکتی ہے۔اس طرح جدید طرز زندگی کے پیدا کردہ مسائل سے کسی حد تک نمٹا جا سکتا ہے۔
*ادب*- ہمارا ادبی ورثہ بہت زرخیز ثابت ہوا ہے گو کہ ابتدائی  سالوں کے ادبی ذخائر کا جائزہ لیں تو بائیں بازوں کے افکار غالب نظر آتے ہیں تاہم بدلتے وقت کے ساتھ نئے نظریات و افکار شامل ہوتے رہے غالب ذخائر مقامی اور قومی زبان کے ہی ہیں لسانیات ادب کا اہم جزو ہے لہذا قومی زبان کی ترویج و ترقی کا راز اسے انگریزی کے نعم البدل کے طور پر پیش کرنے میں ہے البتہ فخریہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ادبی ورثہ نے مغربی یلغار کا کامیاب مقابلہ کیا۔
*ثقافتی کھیل و میلے-*کسی بھی قوم کی ثقافت کو پرکھنے کا ادب کے بعد اہم ترین پیمانہ اس کے علاقائی کھیل ہوتے ہیں۔ کھیلوں کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے قدیم یونان اور ہند کی تاریخ میں کھیلوں کا نمایاں ترین ذکر ملتا ہے۔ اکثر ثقافتی کھیل جنگ و جدل کی تربیت و مشق سے وابستہ ہیں۔ برصغیر میں نیزہ بازی، کبڈی، بیل دوڑ مویشیوں کی نمائش سمیت درجنوں ثقافتی ایونٹ درباروں مزاروں کے علاوہ سرکاری سطح پہ میونسپل اور ٹاؤن کمیٹیوں سے لیکر صوبائی سطح تک  منعقد ہوتے تھے یہاں بھی جدیدیت modernism نے ہم سے جانبازوں اور جواں مردوں کی یہ کھیلیں چھین لیں اب سرکاری سرپرستی صرف مغربی کھیلوں ہاکی، کرکٹ، فٹبال، والی بال، ٹینس وغیرہ کو حاصل ہے۔ سکول ،کالج، یونیورسٹی سطع پہ اب ان ثقافتی کھیلوں کا تصور تک مٹ چکا ہے ان کی جگہ اوپر بیان کیے گئے کھیلوں نے لے لی ہے۔ جدید کھیلوں کے ساتھ ساتھ مقامی ثقافتی کھیلوں کی سرپرستی ضروری ہے ۔ یہ تو چند شعبہ ہائے زندگی ہیں ان کے علاؤہ فوجی نظام، دفتری دستور،افسر شاہی اور خدمات کے شعبہ جات میں سادگی لاکر انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ تعلیم، لباس،رہن سہن اور روزمرہ ضروریات زندگی میں سادگی سمیت بیشمار امور ہیں جن میں جدیدیت اور قدامت کے امتزاج کے ذریعے مسائل میں کسی حدتک کمی لائی جا سکتی.

ای پیپر دی نیشن