زرداری کے سندھ داخلے پر پابندی

پنجاب اسمبلی کی 20 سیٹوں پر ضمنی الیکشن کے نتیجے نے کھلبلی مچا دی۔ ہر کوئی حیران رہ گیا۔ خود پی ٹی آئی بھی۔ اس نتیجے کو سب سے اچھا عنوان پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے دیا۔ سرپرائز۔
سرپرائز ہی تھا۔ بیشتر سے زیادہ تجزیہ نگاروں اور نجومیان سیاست کا ’’متفقہ‘‘ فیصلہ یہ تھا کہ مسلم لیگ 15 سے 17 سیٹیں جیت جائے گی۔ پی ٹی آئی کو نہیں ملیں گی۔ خود پی ٹی آئی کا حال یہ تھا کہ‘ اس کی قیادت سے رابطہ رکھنے والے صحافیوں کے مطابق ان کی امید 6 سے 7 سیٹوں تک تھی‘ لیکن نتیجہ جب یکسر الٹ آیا‘ پی ٹی آئی 15 سیٹیں لے اڑی۔ مسلم لیگ کو صرف چار ملیں تو حیرت کا عالم یہی ہونا تھا جو ہوا۔
پی ٹی آئی جوش کے عالم میں اسے انقلاب قرار دے رہی ہے تو یہ اس کا ’’جذباتی حق‘‘ ہے حالانکہ یہ محض 20 کا ضمنی الیکشن ہے۔ سیٹوں‘ مسلم لیگ ان سب سیٹوں پر الیکشن ہار گئی تھی۔ عام انتخابات میں اور اب اس نے 4 سیٹیں واپس لے لی ہیں۔ مسلم لیگ کو اگر شکست فاش ہوئی ہے تو اس معنے میں کہ اس نے 16 یا 17 سیٹیںواپس لینے کا جو خواب دیکھا تھا‘ وہ پورا نہیں ہوا۔ نیٹ نتیجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ کی 4 سیٹیں بڑھ چکی ہیں۔ پی ٹی آئی کی پانچ کم ہو گئی ہیں‘ لیکن ابھی پی ٹی آئی یہ بات نہیں سمجھے گی‘ دو چار دن بعد سمجھنے کی امید کی جا سکتی ہے۔
مسلم لیگ کیوں زیادہ سیٹیں نہیں لے سکی؟ سرفہرست جواب مہنگائی ہے۔ خود نوازشریف نے مانا کہ مشکل فیصلوں سے ہمیں نقصان پہنچا۔ برسبیل تذکرہ‘ انہیں مشکل فیصلے لینے کی وجہ سمجھتے ہیں۔ ہر حکومت یہ فیصلے آسانی سے لے لیتی ہے اور ہر حکومت یہی کہتی ہے کہ مشکل فیصلے تھے۔
مشکل تو عوام کو ہوتی ہے۔ وہ انہیں مشکل فیصلے نہیں کہتے‘ کچھ کہتے ہیں اور جو وہ سمجھتے ہیں ناقابل اشاعت اور ناقابل سماعت ہے اور یہ چکر آج کا نہیں ہے‘ جس جس نے جب جب سے ہوش سنبھالا ہے‘ ایسے ہی فیصلے دیکھتا آیا ہے۔
خیر بات درست ہے‘ لیکن بڑی حد تک۔ کچھ وجوہات اور بھی ہیں۔ یہ کہ جن افراد کو ٹکٹ دیئے گئے‘ اکثر حلقوں میں پارٹی کے کئی دھڑوں نے ان کی مخالفت کی‘ حمایت نہیں کی۔ کئی ناکام امیدواروں نے بتایا کہ فلاں دھڑے نے مجھے ووٹ نہیں دیا۔ دھڑے بندی کا ازالہ قیادت کرتی ہے اور قیادت مسلم لیگ کے پاس ‘ بدقسمتی سے ہے ہی نہیں۔ ہے نہ انوکھی بات۔ ہر پارٹی کی قیادت ہوتی ہے‘ مسلم لیگ کی نہیں ہے۔ کہنے کو تو نوازشریف قائد ہیں‘ لیکن وہ لندن میں بیٹھے ہیں‘ ان کی زیادہ چلتی نہیں ہے۔ چلتی شہبازشریف کی ہے جو کبھی بھی قائد نہیں رہے۔اس حد تک کہ 2018ء کے بعد انہیں متحدہ اپوزیشن کا قائد بنایا گیا۔ … حکمران بڑی صلاحیتوں والے ہیں‘ لیکن قائد تو ذرا بھر نہیں۔ یعنی مسلم لیگ بہت سی بوگیوں والی ایسی ٹرین ہے جس کے آ گے کوئی انجن نہیں ہے۔ حیرت ہے‘ بنا انجن کے بوگیوں والی اس ٹرین نے پھر بھی چار سیٹیں جیت لیں۔ عجوبہ!
مریم نواز ضرور بالاضرور انجن ہیں‘ طاقتور اور تیز رفتار انجن‘ لیکن یہ انجن بوگیوں کے ساتھ نہیں لگا ہوا ہے۔ متوازی خالی زمین پر کھڑا ہے۔
نوازشریف واپس کیوں نہیں آرہے؟ اس سوال کا جواب شہبازشریف جانتے ہیں‘ لیکن بتائیں گے نہیں۔
ایک تھیوری سیاسی منڈی میں گردش کر رہی ہے۔ اس سے اتفاق نہیں ہے (یا پتہ نہیں تھوڑا تھوڑا ہے) اور تھیوری یہ ہے کہ شہباز‘ زرداری اور اسٹیبلشمنٹ نوازشریف کے باب میں ’’ایک بیج‘‘ پر ہیں۔
یہ ایک پیج بھی خدا جانے کیا شے ہے۔ کوئی بھی کتاب کھولو‘ سامنے یہی آجاتا ہے۔
مریم نوازشریف صاحبہ نے فرمایا ہے کہ عمران خان صاحب الیکشن کمشن پر اس لئے چڑھائی کر رہے ہیں‘ کہ انہیں فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کرنے کا خوف ہے۔
ہمیں تو ایسا نہیں لگتا۔ بھلا عمران خان ایسے فیصلے سے کیوں ڈریں گے جو سنائے جانے کیلئے لکھا ہی نہیں گیا۔ وہ تو محض ’’محفوظ ‘‘ رکھنے کیلئے لکھا گیا ہے۔
فیصلہ سنائے جانے کا امکان بہرحال تھا‘ بقدر ایک فیصد کے‘ معاف کیجئے گا بقدر صفر اعشاریہ ایک فیصد کے۔ ضمنی انتخاب کے نتیجے کے بعد یہ ایک اڑ گیا‘ رہ گیا صفراعشاریہ۔
صفر اعشاریہ کے آگے پھر سے کوئی عدد لگ بھی سکتا ہے‘ البتہ اس کیلئے پانچ سات برس صبروتحمل سے گزارنے کی ضرورت ہے۔ آج وزیراعظم نے بھی یہ فیصلہ سنانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔مطالبہ اے بلبل شوریدہ ہے تیرا خام ابھی‘ اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی۔
خبریں ہیں کہ مخدوم شاہ محمود قریشی اپنے صاحبزادے کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوانا چاہتے ہیں۔ پچھلے الیکشن میں آپ خود وزیراعلیٰ بننا چاہتے تھے‘ لیکن آپ صوبائی سیٹ ہی ہار گئے۔ وہ شاخ بھی نہ رہی جس پر وزارت اعلیٰ کا آشیانہ بننا تھا۔ اور آپ کی جگہ‘ آپ سے بھی زیادہ صلاحیتوں والے بزدار صاحب کوگدی مل گئی۔
خبریں پتہ نہیں درست ہیں یا نہیں‘ لیکن کراچی کے ایک معاصر نے اس خبر کو شہ سرخی بنایا ہے۔ ایسا ہے تو فی الحال یہ خواہش فارن فنڈنگ والے فیصلے کی طرح۔ ’’محفوظ‘‘ بنا کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ دو روز بعد جو الیکشن ہونے ہیں‘ وہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق دو امیدواروں میں ہونے ہیں۔ نئے سرے سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جانے کی کوئی صورت نہیں۔ پہلے سے سے طے شدہ امیدوروں میں حمزہ اور پرویز الٰہی شامل ہیں۔
پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بن گئے تو فیصلے وہی کریں گے۔ پی ٹی آئی یا اس کا کوئی دھڑا نہیں۔ اب کیا خیال ہے قریشی صاحب؟
ڈالر اتنا چڑھا کہ انہونی کر دی۔ 220 روپے سے بھی زیادہ کا ہو گیا۔ کہاں دو ہفتے پہلے یہ پیشن گوئی کی تھی کہ یہ 190 روپے پر آئے گا اور پھر اس سے بھی نیچے آ ئے گا۔ کہاں اب یہ 250 کی پیش گوئی والے خانے میں آگیا ہے۔
ضمنی انتخابات کے مثبت نتائج اگر ہیں تو ڈالر کیلئے۔ سوچئے۔ قرضوں کی مالیت کہاں سے کہاں جا پہنچی۔
خیر خوشی کی بات ہے کہ گھی 30 روپے کلو سستا ہو گیا ہے۔ جو حضرات پہلے ایک کلو گھی لیا کرتے تھے‘ وہ اب آسانی سے آدھی چھٹانک اوپر لے سکتے ہیں۔
فواد چودھری نے نئے پاکستان کی واپسی کا افتتاح عطا تارڑ اور رانا ثناء اللہ کے پنجاب داخلے پر پابندی کے متوقع فیصلے سے کیا ہے۔
پی ٹی آئی‘ پی ٹی آئی ہے۔ اگلا قدم مولانا فضل الرحمن کے پشتونخوا داخلے پر پابندی ہو سکتا ہے۔ پی ٹی آئی ، پی ٹی آئی ہے، اگلا ضقدم مولانا فضل الرحمان نے خیبر پختونخواہ میں داخلے پر پابندی کا ہو سکتا ہے۔ بعدازاں آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے سندھ داخلے پر بھی پابندی لگا سکتے ہیں۔ کل کلاں پرویزالٰہی سے جھگڑا ہوا تو ان کے گجرات داخلے کو بھی روکا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...