سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کیلئے مختلف امیدواروں نے اپنے اپنے حلقوں میں خوب انتخابی مہم چلائی کارنر میٹنگز میں عوام سے وعدہ کیا گیا ہے کہ ہم جیت کر عوام کے بنیادی مسائل ان کی دہلیز پر حل کردیں گے پچھلی حکومتوں نے کچھ نہیں کیا وہ صرف وعدے کرتی رہیں ہم ہی عوام کے اصل نمائندے ہیں اور ہم کراچی کے مقامی باشندے ہیں ہم یہاں کے مسائل بہتر جانتے ہیں اورہمیں ان کو حل کرنا بھی آتاہے ہم اقتدار میں وسائل کا بہانہ نہیں بنائیں گے بلکہ جو بھی وسائل دستیاب ہوں گے ان ہی میں رہتے ہوئے عوامی مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گے الغرض تمام پارٹیوں اور آزاد امیدوار عوام سے جتنے وعدے کرسکتے تھے کرڈالے ہیں لیکن ان وعدوں پر عمل کب اور کیسے ہوگا اور کون کرے گا ؟یہ تو آنے والا واقت ہی بتائے گا لیکن پچھلے ریکارڈکو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں اس مرتبہ نئے چہرے عوام کے سامنے ضرور آئیں گے پرانی پارٹیوں اور پرانے لوگوں کو عوام نے بہت مواقع دیئے اور انہیں ہر مرتبہ ازمایالیکن وہ ہر مرتبہ وسائل اور اختیارات کا بہانہ بناکام سے بھاگتے رہے اور اپنی تنخواہوں اور مراعات سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت 14سال سے موجیں کررہی ہے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پیپلزپارٹی نے شاندار فتح حاصل کی ہے اب دوسرا مرحلہ آ گیا ہے کراچی اور حیدرآباد زیادہ شہری آبادی پر مشتمل ہیں لہذا یہاں بلدیاتی انتخابات کے نتائج اندرون سندھ کے نتائج سے مختلف ہوں گے۔خاص طور پر کراچی میں ایم کیو ایم(پاکستان)۔ پیپلزپارٹی۔پی ٹی آئی ۔ جماعت اسلامی اور تحریک لبیک کافی سرگرم نظر آرہی ہیں اور مقابلہ بھی انہی جماعتوں کے درمیان ہوتادکھائی دے رہاہے ۔ پیپلزپارٹی کے پاس کیونکہ صوبائی حکومت ہے لہذا وہ حکومت میں ہونے کا فائدہ اٹھائے گی ۔ 2013 بلدیاتی نظام کے تحت پاکستان کے سب سے بڑے شہر کا میئر بے اختیار تھا لیکن 2021کے بلدیاتی قانون میں ترمیم کی گئی جس کے تحت چند سرکاری ہسپتالوں کو کے ایم سی میں شامل ہونا تھا لیکن ابھی تک یہ کنفرم نہیں ہے کہ ایسا ہوگا کہ نہیں ۔ دوسرا یہ کہ2021کی ترمیم کے مطابق یوسی چیئرمین اور وائس چیئرمین کے پاس کوئی اختیار اور وسائل نہیں ہوں گے اور اگر انہیں کچھ رقم دے بھی جاتی ہے تو وہ صرف اتنی ہی ہوگی جسے وہ گٹروں کے ڈھکن ہی خرید سکیں گے اس سے زیادہ وسائل اور اختیارات نہیں ہوں گے ۔18ویں ترمیم کے بعد بہت وسائل صوبائی حکومتوں کو منتقل ہوچکے ہیں، اب یہ صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ شہر کراچی کے مسائل حل کرے ، یہ وفاق کی ذمے داری نہیں رہی، البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیںکہ کراچی پاکستان کو سب سے زیادہ ریونیو دینے کے باوجود نظر انداز ہے، محسوس یوں ہوتاہے جیسے اسے جان بوجھ کر تباہ وبرباد کیا گیاہے۔ اتنے بڑے شہر کا میئر ،چیئرمین اور وائس چیئرمین بے اختیار ہونگے یہ عجیب نظام ہے ۔ حالانکہ نچلی سطح پر اختیارات اور وسائل دینے سے عوام کے بنیادی مسائل جلد ہوجائیں گے اور اس کامثبت اثر صوبائی حکومت پر پڑے گا، عوام میں صوبائی حکومت کی ساکھ بھی بحال ہوسکیں گی جو معذرت کے ساتھ اس وقت بہت خراب ہوچکی ہے۔ اگر سندھ حکومت میئر اور چیئرمین اور وائس چیئرمین کو بااختیار بنادے تواس سے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں جن مسائل میں کراچی شہر پھنسا ہواہے۔ کچرا اٹھانا، صفائی ستھرائی، گٹرندی نالوں کی تعمیر وصفائی، برساتی نالوں کی صفائی، سڑکوں کی تعمیر، واٹر بورڈ کے مسائل ، سیوریج کے مسائل کو حل کرنے کی ذمے داری تو نچلی سطح پر بلدیاتی اداروں کو دینی چاہیے ، اسی طرح علاج ومعالجے کیلئے سرکاری ہسپتالوں میںآنیوالی عوام کوداوں اور ڈاکٹروں کی بے توجہی کے مسائل بہت سے مسائل ہیں وہ بھی حل ہوسکتے ہیں کیونکہ جب شہر کا میئر، چیئرمین اور وائس چیئرمین بااختیار ہوں گے تو وہ اپنے علاقوں کی سرکاری ہسپتالوں میں وزٹ کرسکیں گے اور وہاں عوام کودرپیش مسائل حل کروانے کی کوشش کریں گے، جس سے سرکاری ہسپتالوں کا معیار بہتر ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں جب کراچی شہر کامیئر جماعت اسلامی کے( نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ)تھے تو اس زمانے میں انہوں نے بڑی تیزی اور ایمانداری سے ترقیاتی کام کروائے تھے، انہوں کراچی کے مختلف علاقوں سے پبلک ٹرانسپورٹ بھی چلائی تھی، کیونکہ اس وقت وہ بااختیار تھے اس لئے انہوں نے اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے بہت اچھے اقدام اٹھائے تھے جس کے بعد مارکیٹوں میں اشیائے خورنوش کی قیمتوں میں اضافے کرنے والے خوفزدہ ہوگئے تھے اور عوام کو اشیائے خوردونوش سستے نرخوں میسر آرہی تھیں۔ اس کے بعد کراچی کا میئر مصطفی کمال بنا جنہوں نے کراچی کوایسی بے مثال ترقی دی کہ آج تک مصطفی کمال کے دورے میں بنی ہوئی سڑکیں اور پل عوام کو سہولت پہنچارہے ہیں ، ٹریفک مسائل ان کی ہی وجہ سے کچھ کم ہوئے ہیں، مصطفی کمال نے ہی K-4 منصوبہ شروع کیاتھا اور اپنی میئر شپ کی مدت میں ہی اسے مکمل کرانا چاہتے تھے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا ورنہ آج کراچی کے شہری پینے کے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، ایسا نہ ہوتااور آج کراچی کی ہر گلی میں پینے کا پانی دستیاب ہوتا۔ 2008 کے بعد کراچی میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کروائے گئے صرف چند انڈر پاس بنائے گئے ، گرین لائن منصوبہ بھی وفاق کا تھا، صوبائی سطح پر کراچی میں خاطرخواہ ترقیاتی کام نہیں ہوئے جس کی وجہ سے آج کراچی تباہی کاشکار ہے۔بہرحال یہ دونوں ادوار کراچی کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں تھے ، کیونکہ اس وقت میئر بااختیار اور وسائل یافتہ تھا لہذا اس نے وسائل کوبھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ اگر آج بھی اختیارات اور وسائل کو نچلی سطح پر منتقل کردیاجائے تو کراچی ایک بار پھر سے روشنیوں ، سبزوشاداب ، کچرے سے پاک ، پینے کے پانی کی سہولت، پبلک ٹرانسپورٹ ، واٹر اینڈ سیوریج کے مسائل بآسانی حل ہوسکتے ہیں۔ورنہ جو نظام اس وقت رائج ہے اس کے مطابق نا تو میئر کچھ کرسکتاہے اور نہ ہی یوسی چیئرمین اور وائس چیئرمین کچھ کرسکیں گے۔ تو کیا فائدہ ایسے بلدیاتی نظام کا جس کے ذریعے عوام کے مسائل ہی حل نہ ہوسکیں اورتنخواہوں کی مد میں سرکاری خزانہ اور قیمتی وقت بھی ضائع ہوجائے۔