وزیرِاعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب میں کہا کہ ہم اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ خودانحصاری واحد راستہ ہے جو قوموں کو عزت اور وقار سے ہمکنار کرتا ہے۔ مگر یہ کوئی آسان راستہ نہیں اس کے لیے کانٹوں بھرے راستے سے گزرنا پڑتا ہے۔ اللہ کی ذات پر انحصار کیا جائے اور انکساری کے ساتھ دن رات محنت کی جائے تو آپ کی محنت ضرور رنگ لائے گی، اللہ تعالیٰ کا بھی یہی حکم ہے۔ دعا ہے آئی ایم ایف سے آخری معاہدہ ہو اور ہم خود کفیل ہو جائیں۔ آئی ایم ایف سے چھٹکارے کا ایک حل ملائیشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد نے بیان کیا تھا۔ مہاتیر محمد نے 20 دسمبر 1925ء کو ایک غریب گھرانے میں جنم لیا۔ ان کی زندگی اور سیاست کا سفر ایک مثال ہے کہ انہوں نے اپنے علم اور تجربے سے قوم پرستانہ بنیادوں پر ملائشیا کو ایک شاندارملک بنا دیا اور ان کی جدوجہد غیر ملکی طاقتوں، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے قرضوں کے بغیر کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
مہاتیر محمد نے ایک کتاب لکھی جس کا نام The Malay Dilemma رکھا اس کا اردو ترجمہ فرخ سہیل گوئندی نے ’’ایشیا کا مقدمہ‘‘ کے نام سے 2010ء میں شائع کیا۔ عمران خان اپنی وزرات عظمیٰ کے دورمیں ملائشیا کے دورے پر گئے۔ انہوں نے مہاتیر محمد سے ملاقات کی اور ان سے دریافت کیا کہ انہوں نے کیسے اپنے ملک کو فلاحی ریاست بنایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم شہباز اگر مہاتیر محمد کی باتوں پر غور کر یں تو ان کے لیے معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔
مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا قیام بین الاقوامی اقتصادیات میں توازن قائم رکھنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ جنگ کے بعد اقتصادی تعمیر کے لیے آئی ایم ایف نے فکس کرنسی ایکسچینج ریٹ کا نظام ترتیب دیا۔ جس میں بڑی کامیابی کے ساتھ جنگ کے بعد دیوالیہ ہو جانے والے ممالک ہوں نہ صرف سنبھل لیں بلکہ خوشحال ہونے کا موقع فراہم کیا۔ جنگ کے بعد آئی ایم ایف نے فکسڈ اکانومیز کی حمایت کی جہاں پر مارکیٹ کے تناؤ کو سمجھدار حکومتی قواعد و ضوابط کے لیے کنٹرول کیا جاتا۔ بنیادی طور پر ’’بریٹن وڈز‘‘ کا طرزِ حکومت اس وقت ختم ہو گیا جب ترقی یافتہ ممالک اپنے وعدے سے پھِر گئے اور انہوں نے اپنی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے اپنی کرنسیوں کی قیمت میں کمی کی۔ ایسا دراصل تنخواہیں بڑھانے کے مطالبوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیا گیا جس سے بین الاقوامی منڈی میں ان کے مقابلے کی سکت میں کمی آ رہی تھی۔ اگر ترقی یافتہ ممالک اجرتوں پر قابو رکھتے تو انہیں تخفیف زر کی کوئی ضرورت پیش نہ آتی اور آج بھی بریٹن وڈز فکسڈ کرنسی ایکسچینج کا نظام بین الاقوامی خوشحالی کا سب سے بڑا علمبردار ہوتا۔
جب قواعد و ضوابط کی پابندیوں کی استدعا کو سنجیدہ لیا گیا تو میں نے اور میری حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ اس منہ زور گھوڑے کو لگام دے کر ہم اپنے مسائل کا حل خود تلاش کریں گے۔ اس سلسلے میں ستمبر 1998ء میں کافی غور و خوض کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمیں اقتصادی بہاؤ پر پھر کنٹرول کرنا ہوگا۔ جس کے لیے دو طریقے وضع کیے گئے، پہلے تو یہ کہ ڈالر کے مقابلے میں فکسڈ ایکسچینج ریٹ کا پھر سے اجراء کیا جائے اور دوسرے اپنی کرنسی کے سمندر پار کے ذخائر کو واپس لانے کی کوشش کی جائے تا کہ ہم اپنے ملکی اثاثوں پر پوری طرح سے کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے سٹاک ٹریڈنگ پر نئے قواعد و ضوابط لاگو کیے تا کہ شارٹ سیلنگ کے مضر اثرات سے بچاؤ کے ساتھ ساتھ سٹاک مارکیٹ میں ہونے والی تجارت کو مزید شفاف بنایا جا سکے۔ اب ملائشیا میں خرید کردہ کوئی بھی سٹاک ایک سال سے کم مدت کے عرصہ میں فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بین الاقوامی سطح پر کوئی انوکھی بات نہ تھی کیونکہ جنوبی امریکہ کے ملک چلی میں بھی اس قسم کا قانون موجود ہے۔
تو پھر مسئلے کا حل کیا ہے؟ ایک مشہور ملایا روایت ہے کہ آپ راستہ بھول جائیں تو آپ کو پھر سے وہاں پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے جہاں سے آپ نے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اسی لیے ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ ہم فکسڈ ایکسچینج ریٹ کے نظام سے ہی رجوع کریں، جو جنگ عظیم کے بعد بدحال معیشتوں کی تعمیر کا سب سے بڑا سبب ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل مہاتیر محمد کے تجربات سے رہنمائی حاصل کریں تو ملک فلاحی ریاست بن سکتا ہے۔ قبل ازیں عمران خان نے مدینہ کی ریاست اور فلاحی ریاست کے بنانے کے نعرے لگائے مگر وہ عملی جامہ نہ پہنا سکے۔