قومی زبان ،وقت کی اہم ضرورت

Jul 20, 2022

کوئی قوم بھی اپنی زبان کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ زبان مدعا بیان کرنے، اطلاعات بہم پہنچانے اور ہدایات دینے کیلئے ایک آلہ اور اوزار کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ انسان جس زبان میں سوچتا ہے اسی میں بیان کرسکتا ہے ۔اپنی مادری اور قومی زبان چونکہ انسان کی سرشت میں رچی بسی ہوتی ہے اس لئے اس میں خیالات، فکر وتدبر صحیح طور پر ممکن ہوتے ہیں۔
پاکستان کی قومی زبان اردو وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن نفاذِ اردو کیلئے بے حد محنت اور کاوش ضروری ہے۔ اور اگر یہ عملی طور پر حکومتی سطح پر ہو تو مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ نجی سطح پر کئی ایک تنظیمیں اور انجمنیں نفاذ اردو کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہتی ہیں جس سے جزوی طور پر عمرانی و سماجی سطح پرتو اثر ہوتا ہے لیکن قانونی اور حقیقی طور پر عملی صورت ممکن نہیں ہوتی۔ ’’پاکستان قومی زبان تحریک‘‘ جس کے صدر سابق اکائوٹنٹ جنرل پنجاب محمد جمیل بھٹی ہیں وہ خود بھی کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ محترمہ فاطمہ قمر صدر شعبہ خواتین پنجاب اپنے طور پر بے حد فعال ہیںوہ آئے روز سیمینار اور مذاکرات کا اہتمام کرتی رہتی ہیں۔ اسی طرح ’’تحریک نفاذ اردو پاکستان‘‘ بھی بے حد فعال ہے جس کے صدر و بانی عطا الرحمن چوہان ہیں جبکہ محترمہ افشین شہریار صدر وسطی پنجاب بھی آئے روز کوئی نہ کوئی تقریب منعقد کر کے نفاذ اردو کیلئے رائے عامہ ہموار کرتی رہتی ہیں۔ انکے مددگار عمران یوسف سینئر نائب صدر لاہور، عابد نصیر نائب صدر لاہور ، رفیق بھٹی محسنی ناظم لاہو،ر فرزانہ کاشف سینئر نائب صدر لاہور، روزینہ زرش بٹ نائب صدر لاہور اور طاہرہ بانو نائب صدر لاہور اپنی علمی و فکری کاوشوں کے ساتھ ان کا ساتھ دیتی ہیں۔
 23جولائی بروز ہفتہ ایک بے حد اہم اور موثر تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے جس کا موضوع ـ’’نفاذ قومی زبان ، امکانات، رکاوٹیں اور حل‘‘ ہے۔ صدارت مذہبی مفکر ڈاکٹر پیر طارق شریف زادہ اور عطاالرحمن چوہان فرمائیں گے جبکہ مہمانان خصوصی، پروفیسر اعتبار ساجد، ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم، افتخار احمد عثمانی اور اسلم انوری ہیں۔ یہ تقریب ای لائبریری قذافی سٹیڈیم لاہورمیں منعقد ہو گی۔ تقریب کے دوسرے مرحلہ میں اردو مشاعرہ منعقد ہوگا جس کی نقابت عابد نصیر کریں گے۔ جبکہ ڈاکٹر فخر عباس، صائمہ آفتاب ،میثم عباس، شعیب مغیرہ صدیقی، علیمہ جبیں ،خالد ندیم عثمانی، سبطین رضا، صباحت عروج، نون عین صابر، حنا شہزادی اور رقیعہ ملک اپنا کلام سنائیں گے۔ ’’تحریکِ نفاذ اردو پاکستان‘‘ کی اس تقریب میں ملک بھرسے مختلف ادیب شاعر شرکت کرینگے ۔ صنان محمد گجر، علمیہ جبیں، نبیل طاہر، عمران یوسف اور رفیق بھٹی محسنی تقریب کی کامیابی کیلئے شب و روز کوشاں ہیں ۔ محترمہ افشیں شہریار کی زیرِ نگرانی نفاذ اردو کیلئے یہ کاوش یقینا کامیاب ہوگی۔
بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا تھا۔ لیکن اسکے باوجود اب تک کوئی خاطرخواہ کامیابی ممکن نہیں ہوئی۔ لکھاریوں اور شاعروں کی تعداد میں بے حد اضافہ ہوا ہے لیکن تعلیمی نصاب کی حیثیت سے اسے مکمل طور پر نہیں اپنایا گیا۔ مختلف مضامین خصوصاً سائنس میں کتابیں تیار نہیں کی گئیں ۔ میٹرک کی سطح تک ٹیکسٹ بک بورڈز کی کوششوں سے اردو میں کتابیں دستیاب ہیں لیکن اس کے اوپری سطح پر کوئی تحقیقی کام نہیں ہوا حالانکہ ملکی اور قومی حکومت کے زیرِ انتظام کئی سرکاری ادارے قائم کئے گئے ہیں۔دیگر زبانیں پڑھنے یا پڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور بلا وجہ انگریزی کی مخالفت اور طنزیہ رویہ اپنانا بھی کوئی اخلاقی طور پر اچھی بات نہیں ہے۔ تمام مسلم فلسفی کئی زبانوں کے ماہر تھے ۔ قومی زبان اردو میں جو شیریں احساس و مٹھاس پائی جاتی ہے وہ بدیسی زبان میں ممکن نہیں ۔ فی زمانہ ضرورت اس امر کی ہے کہ سائنسی مضامین کو خصوصی طور پر اردو کے قالب میں ڈھالا جائے اور جہاں تک ممکن ہو اردو میں دستیاب اصطلاحات استعمال کی جائیں۔ تمام تر مشکلات اور رکاوٹوں کے ہوتے ہوئے ہمیں پاکستان کی قومی زبان اردو کے نفاذ کیلئے کوششیں کرنی چاہئیں کیونکہ اردو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پنجابی، سندھی ، بلوچی، سرائیکی و دیگر علاقائی و مادری زبانوں کی طرف بھی خصوصی توجہ دی جائے لیکن اردو کو اس کا مقام ملنا چاہیے۔سکول کے درجہ خصوصاً مڈل حصے میں پہلے کی طرح عربی یا فارسی لازمی پڑھائی جائے۔ جس سے اردو میں نکھار پیدا ہوتا ہے کیونکہ ہمارے یہاں اردو میں دیگر زبانوں کی نسبت عربی اور فارسی کے الفاظ زیادہ شامل ہیں۔ 1973ء کے آئین پاکستان میں بھی نفاذ اردو کیلئے ہدایت دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس ایس خواجہ نے بھی اردو کے حق میں فیصلہ دیاتھا۔ قائداعظم نے تو ابتدا ہی میں فرمایاتھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی لہٰذا اب تمام تر رکاوٹوں کودور کر کے پہلی فرصت میں قومی زبان کے نفاذ کیلئے عملی صورت پیدا کی جائے۔ 

مزیدخبریں