اسلام آباد(آئی این پی )وفاقی بجٹ میں رئیل سٹیٹ سیکٹر پر 440ارب کے ٹیکسوں سے تعمیراتی سرگرمیاں ماند پڑنے لگیں،ملک بھر میں جائیداد کی خریدو فروخت میں کمی،نان فائلرز کیلئے ودہولڈنگ ٹیکس بڑھا کر 5فیصد کر دیا گیا،غیر منقولہ جائیداد پر ایک سال کی مدت کے دوران کیپیٹل گین ٹیکس 15 فیصد،رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے نمائندوں کا بھاری ٹیکس واپس لینے کا مطالبہ۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق وفاقی بجٹ 2022-23 میں اعلان کردہ بھاری ٹیکسوں کے اقدامات سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی ترقی کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے جس سے تعمیراتی سرگرمیوں میں مندی آئے گی۔ ٹیکس کی شرحیں اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر پر نئی شرحیں عائد کرنے سے یہ شعبہ دبائو کا شکار ہے۔ ایک رئیل اسٹیٹ ایجنٹ خالد عمران چوہدری نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ غیر منقولہ جائیداد بیچنے والوں اور خریداروں دونوں پر 440 ارب روپے کے ٹیکس عائد کرنے سے یہ شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافہ جو جائیداد کے خریداروں کے نام پر منتقل ہونے سے پہلے ادا کیا جاتا ہے لین دین میں زبردست کمی کا باعث بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے بجٹ 2022-23 میں فائلرز کے لیے ود ہولڈنگ ٹیکس کو بالترتیب ایک فیصداور 2 فیصد بڑھا کر 2 فیصداور نان فائلرز کے لیے 5 فیصدکر دیا ہے۔ ایک اور رئیل سٹیٹ ایجنٹ عباس خان نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ نئے بجٹ میں یہ شرط بھی رکھی گئی ہے کہ 25 ملین روپے سے زائد مالیت کی ایک سے زائد غیر منقولہ جائیداد کے مالکان کو جائیداد کی منصفانہ مارکیٹ ویلیو کے 5 فیصد کے برابر کرایہ وصول کیا جائے گا اور وہ ایک فیصد کی شرح سے ٹیکس ادا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے غیر منقولہ جائیداد پر ایک سال کی مدت کے دوران کیپیٹل گین پر 15 فیصد ٹیکس بھی لگایا ہے جو ان کے بقول بہت زیادہ ہے۔ اس کی خریداری پر 12.5 فیصدجائیداد 2 سال میں بیچنے پر، 10 فیصدتین سال میں، 7.5 فیصدچار سال میں، 5 فیصدپانچ سال میںاور 2.5فیصد6 سالوں میں وصول کی جائے گی۔ سات سال بعد جائیداد بیچنے پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہو گا۔ ایک اور رئیل اسٹیٹ ایجنٹ فیصل لطیف نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ حکومت نے وفاقی بجٹ میں بہت سے نئے ٹیکس بھی لگائے ہیں جس سے رئیل اسٹیٹ کے لین دین پر برا اثر پڑے گا۔ یہ زیادہ ٹیکس بے روزگاری پیدا کریں گے،انہوں نے کہا کہ حکومت تعمیراتی صنعت کو بچانے کے لیے یہ ٹیکس واپس لے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ نئے ٹیکسوں کے تعمیراتی شعبے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور بھاری ٹیکس لگانے سے ملک میں بے روزگاری بڑھے گی۔ پلاٹ خریدنے کا ارادہ رکھنے والے سید عدنان علی نے کہا کہ اب زیادہ ٹیکس کی وجہ سے لوگوں کے لیے پراپرٹی خریدنا بہت مشکل ہے۔ موجودہ ٹیکسوں میں اضافہ اور نئے ٹیکسوں کے نفاذ سے رہائشی اور تجارتی تعمیراتی سرگرمیوں میں کمی آئے گی۔انہوں نے کہا کہ اب ایک متوسط آمدنی والے شخص کے لیے مکان رکھنا بہت مشکل ہے۔ ان نئے ٹیکسوں نے گھر کی تعمیر سے لے کر ایک اونچی عمارت میں ایک یا دو کمروں کا اپارٹمنٹ خریدنے کا ارادہ بدل دیا ہے جسے وہ برداشت نہیں کر سکتا ہے۔فرحان شبیرجو گھر کی تعمیر کے لیے پلاٹ بھی خریدنا چاہتے تھے نے کہا کہ بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے جائیداد کو اپنی پہنچ سے دور ہونے کے بعد میں نے اپنا منصوبہ روک دیا ہے۔