وطن عزیز کے مخدوش معاشی و سیاسی حالات‘ اتحادی حکومت کے بعض وزراءکی جانب سے اوورسیز پاکستانیوں کی حب الوطنی کے بارے میں کی گئی ” تقاریر“ اور پاکستان کو درپیش سیاسی چیلنجز کے جو مناظر آجکل سوشل میڈیا پر دکھائے جا رہے ہیں‘ ان سے یہ اندازہ لگانا کہ بیرون ممالک بسنے والی نئی پاکستانی نسل اپنے بزرگوں کے وطن کے بارے میں کس تذبذب اور غیریقینی صورتحال سے دوچار ہے‘ اب قطعی دشوار نہیں رہا۔ میں اسے قومی بدقسمتی ہی تصور کرتا ہوں کہ انگلستان میں نئی نسل سمیت برطانوی پاکستانیوں کی 75 فیصد تعداد نے اردو اخبارات اور لائبریریوں میں رکھی اردو کتب پڑھنے کی عادت ترک کرتے ہوئے یوٹیوب چینلز‘ وٹس ایپ‘ فیس بک‘ ٹویٹر‘ انسٹاگرام اور وی لاگ پر کئے اظہار خیال اور تجزیوں کو جزو زندگی بنالیا ہے۔ شکوہ یہ نہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں مذکورہ تعداد فائدہ کیوں اٹھا رہی ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ سوشل میڈیا پر آنیوالی ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز کی ایک بڑی تعداد صحافت کے بنیادی اصولوں سے ہی نابلد ہے جنہیں صحافتی تربیت کے مزید کئی مدارج طے کرنا ابھی باقی ہیں۔ میرے بعض کرم فرما یہاں ایسے بھی ہیں جنہوں نے ریٹائرمنٹ اور بے روزگاری کے غم کو قدرے کم کرنے کیلئے اپنے یوٹیوب چینل اور ٹک ٹاک اکاﺅنٹ تو کھول لئے ہیں مگر اپنے اس ”چسکا تجزیہ نگاری“ پر مکمل دسترس نہ ہونے کی وجہ سے وہ یہ اندازہ ہی نہیں کر پا رہے کہ انکے ”انٹرو“ الفاظ کی غلط ادائیگی اور اپنے پروگراموں میں لگائی معترضہ ویڈیوز کے بچوں اور خواتین پر کس قدر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟
اس بارے میں ایسی ہی قسمت آزمائی کرنے والے ایک 14 جماعتیں پاس دوست سے جو اٹھتے بیٹھتے‘ جاگتے سوتے‘ چلتے پھرتے اپنے ریکارڈ شدہ پروگرام مجھ تک بھجوانے میں ذرہ بھر سستی کا مظاہرہ نہیں کرتا‘ بتا رہا تھا کہ وہ صحافی ہے‘ کالم نگار ہے اور نہ ہی اینکر۔ قلم اور کتاب سے لوگوں کی دلچسپی چونکہ ختم ہوتی چلی جا رہی ہے اس لئے مجبوراً سوشل میڈیا پر اس نے قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا ہے۔ زیادہ تر لوگ وی لاگ‘ ٹک ٹاک اور یوٹیوب چینلز پر اظہار خیال کرنا چونکہ زیادہ پسند کرتے ہیں اس لئے کافی سوچ بچار کے بعد میں نے اپنے پروگراموں کی زیادہ تر ترتیب پاکستان کے مخدوش سیاسی حالات اور عدم معاشی استحکام پر رکھی ہے تاکہ برطانوی پاکستانیوں سمیت خلیجی اور دیگر یورپی ممالک میں تلاش معاش اور خوشحال مستقبل کے حصول کیلئے بسنے والے پاکستانیوں اور کشمیریوں کے ”سیاسی سواد“ کو زبان و بیان سے مزید Taste full بنا سکوں۔ اپنا متوقع یوٹیوب کھولنے پر میرا یہ بے روزگار دوست کچھ زیادہ ہی پراعتماد نظر آرہا تھا۔ اسکے ذوق گفتگو اور کیمرے کے سامنے بیٹھنے کی غیرمعمولی خواہش سے مجھے یہ اندازہ تو ہو گیا کہ اس پر بھی راتوں رات میڈیا ٹائیکون بننے کا بھوت سوار ہو چکا ہے۔ بہتر ہوگا کہ اپنی اس خواہش کی تکمیل سے قبل وہ ”زبان و بیان“ کی ابتدائی تربیت حاصل کریں تاکہ کیمرے کے سامنے بیٹھ کر انہیں درست لفظوں کے چناﺅ میں مشکل پیش نہ آئے۔ میں نے اسکی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا! یاد دکھو! لفظوں کو زبان دینا‘ حالات حاضرہ کو دوران پروگرام استعمال کرنا‘ موضوع پر مطالعہ اور مضبوط گرفت انتہائی ناگزیر ہے۔ اسی طرح سکرپٹ کی تیاری اور کیمرے کے سامنے تسلسل قائم رکھتے ہوئے بیانیہ انداز اپنانا اس سے بھی مشکل کام ہے۔ آئی ایم ایف کو سکرین پر تم اگر ”آئی ایف ایم“ پڑھو گے تو بھید عیاں ہو جائیگا۔ میری تمام تر نیک تمنائیں تمہارے ساتھ ہیں تاہم میرے اس مشورہ پر غور ضرور کرو۔ مجھے یہ بتاﺅ کہ تمہارے پروگراموں کا ”فارمیٹ“ کیسا ہوگا‘ میں نے پوچھا۔ جانتا تھا تم مجھے اسی طرح کی صحافیانہ تجویز ضرور دو گے۔ دوست نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا! ہاں یہ ہوا ناں سوال کہ فارمیٹ کیا ہوگا؟
”وی لاگ“ کی یہی تو خوبصورتی ہے کہ جب‘ جہاں اور جس موضوع کو پروگرام کی زینت بنانا ہو‘ اسے آپ ریکارڈنگ کے مراحل سے گزار سکتے ہیں تاہم میری خواہش ہو گی کہ اپنے پروگرام میں اوورسیز پاکستانیوں کے ان Bona Fied مسائل کو شامل کروں جس کا تعلق آبائی وطن پاکستان کے قانونی‘ سیاسی‘ معاشی‘ اقتصادی‘ صحت اور نظام تعلیم سے ہو۔ میری اولین خواہش یہ ہوگی کہ برطانیہ میں پروان چڑھنے والی برطانوی پاکستانی نسل کے اپنے آباﺅ اجداد کے وطن کے حوالے سے انکے وہ تحفظات جو انہیں وہاں درپیش ہیں‘ متعلقہ اتھارٹیز کے نوٹس میں لاﺅں۔ میں یہ بھی چاہوں گا کہ پاکستان کو معاشی اور سیاسی طور پر بدحالی سے دوچار کرنیوالے سیاست دانوں اور اداروں کو بھی بے نقاب کروں۔ خواہش میری یہ بھی ہوگی کہ پاکستان کو حال ہی میں ”ترلے منتوں“ سے آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے ملنے والی امداد کے متوقع انتخابات کے بعد رونما ہونیوالے اثرات کو بھی زیربحث لاﺅں۔ میں چاہوں گا پولیس اور دیگر قومی اداروں میں ملک و قوم کی بدنامی کا باعث بننے والے اہلکاروں اور افسروں کو بھی بے نقاب کروں۔ اوورسیز پاکستانیوں کے حق ووٹنگ پر بھی پروگرام کرنے کی خواہش ہے۔ دوست بولتا ہی جا رہا تھا اور مجھے اسے ابھی بہت کچھ سمجھانا باقی تھا۔ درست! میں نے اسے روکتے ہوئے کہا۔ تمہارا قومی جذبہ اور حب الوطنی قابل رشک ہے۔ تمہاری کاوشوں اور خواہشات کا بھی احترام ہے۔ سچائی واقعی عالمگیر حیثیت ہے‘ مگر موجودہ حالات میں ”دن کو دن‘ رات کو رات“ کہنا اتنا آسان نہیں جتنا تم تصور کر رہے ہو۔ اس لئے انجم رومانی کے اس شعر کو ہمیشہ سامنے رکھنا۔
سچ کے سودے میں نہ پڑنا کہ خسارہ ہوگا
جو ہوا حال ہمارا‘ سو تمہارا ہوگا