ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی
احمد فراز
روانگی سے پہلے آدھی رات بیت چکی تھی اور نیند کوسوں دور تھی ۔دل ہلا دینے والی رات تھی ۔ خیالوں پرکہر اب بھی چھائی ہوئی تھی ۔ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے سارے سمندر پر اندھیر اچھاﺅنی ڈالے ہوئے ہے اور یہ رات ہولناک ہوتی جا رہی تھی۔حالانکہ میں جلدی سو جاتا تھا لیکن آج نیند ایسے تھی جیسے مجھ سے ناراض ہو کر وادی کوہ قاف میں چلی گئی تھی۔ بس دِل میں بے قراری تھی جو پورے جسم کو بے چین کر رہی تھی ۔نمودِ سحر قریب تھی۔ آخر کار اپنے بستر سے اُٹھ کر بیٹھ گیا ، کاغذ پنسل پکڑی اور کچھ لکھنا شروع کردیا ۔ بہت سے قصے تھے ماضی کے جب اچھے مستقبل کے لئے ہم دِن رات محنت کر رہے تھے ۔وہ دِن بھی یاد آرہے تھے کس طرح میرے چھوٹے بھائی رانا محبوب دِلدار نے محنت کر کے گھر کے حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کی ۔ اُس نے چھوٹا ہونے کے باوجود ہماری تعلیم میں بڑا کردار ادا کیا ۔چھوٹا ہونے کے باوجود بڑوں والے کام کرکے گھر کی ذمہ داری پوری کی۔ ماضی قریب کے دِن بھی یاد آرہے تھے اور آنکھیں نم ہو رہی تھیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے دِن بدلے اور اس سنگدل معاشرے نے بچپن میں ہی بہت سارے سبق پڑھا دئیے۔یہ رات مجھ پر بھاری پڑ رہی تھی اور میں سونا چاہتا تھا کیونکہ اگلے چوبیس گھنٹے مجھے سفر کرنا تھا۔ بات تو میں پاکستان سے روانگی کی کرنا چاہتا تھا لیکن بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔
لندن روانگی سے پہلے جس طرح دوستوں نے عزت دی اس کو فراموش کرنا بہت مشکل ہے ۔یہ وہ لمحات تھے جس نے پاکستان سے روانگی کو محسوس نہیں ہونے دیا ،خاص کر اساتذہ اکرام نے جن سے متاثرہو کر میں نے لکھنا شروع کیا۔لیکن دوسری طرف جب روانگی کا وقت آیا توکچھ دوستوں نے مجھ سے سوال کیاکہ آپ کے کچھ دوست اِن دنوں نظر نہیں آئے جن کی آپ کھلے دِل سے سپورٹ کرتے تھے۔ میرا جواب یہ تھا کہ شاید رانا فاروق دلدار پاکستان سے جا رہا ہے اور اب وہ اُنکے کسی کام کا نہیں رہا ۔ایک تو یہ وجہ ہو سکتی ہے یا پھر میں اُن کو پہچاننے میں ناکام رہا۔
روانگی کے دِن سارا وقت گھر پر والدین کے ساتھ گزارا ،ملنے والوں کا بھی تانتا بندھا رہا،ہر ایک اپنی اپنی محبت کا اظہار کر کے اپنے جذبات مجھ سے شیئر کر رہا تھا۔ رات بارہ بجے جب گھر سے جانے کا وقت ہواتو میرے لئے والدین کا سامنا کرنا مشکل تھا۔ میں جانتا تھا والد اور والدہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکیں گے۔ والد سے جب گلے لگا تو دِل کو ایسا سکون آیا جو شاید دنیا کی کسی جگہ پر نہیں آسکتا۔ دِل اداس تھا لیکن والد کا حوصلہ دیکھ کر مطمئن تھا۔ پھر والدہ کو ملا تو ان کی آنکھیں نم تھیں لیکن حوصلہ بھی تھا ۔ چھوٹے بھائی حارث، نعیم،وسیم کی اُداسی اُن کے چہروں سے نظر آرہی تھی۔ کزنز اور دوست بھی اپنے چہروں پر اُداسی لئے میرے منتظر تھے۔سب کو مل کر گاڑی میں بیٹھا تو پیچھے مڑ کر جب والدین پر نظر ڈالی تو دِل چیر دینے والی خاموشی تھی جس نے بکھیر کر رکھ دیا ۔ بس ایئر پورٹ تک دل میں مختلف وسوسے جان نہیں چھوڑ رہے تھے۔ ایئر پورٹ سے فون آرہے تھے کہ رانا صاحب جلدی پہنچ جائیں تاکہ آپ کو کسی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔وہاںپہنچے تو ایئر پورٹ پر شہزاد بھائی ہمارے منتظر تھے۔ وہ بہت گرم جوشی سے ملے اور کہنے لگے رانا صاحب جلدی سے اندر چلیں۔ایئر پورٹ پر ایک نیا مسئلہ یہ بن گیا کہ میری بیٹی امل فاروق رانانے اندر جانے سے انکار کر دیا اور زاروقطار رونا شروع کر دیا کہ مجھے لندن نہیں جانا دادو کے پاس جانا ہے ۔روتی کو گود میں اُٹھا کر اندر لے گیا۔ رونے کی وجہ سے سب لوگوں کی توجہ کا مرکز میں تھا ۔ شاید لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ میںزبردستی لیکر جا رہا ہوں۔ امل فاروق تھی کہ چپ ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔امیگریشن کے مراحل سے فارغ ہوکربورڈنگ کارڈ لے کر جب ہال میں پہنچا تو ہال لوگوں سے کھچاکھچ بھرا پڑا تھا۔ ایک لمحے کے لئے محسوس ہوا جیسے پورا پاکستان ہی ملک چھوڑ کر جا رہا ہے۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ میرے پیارے پاکستانیوں کو ہمارے حکمرانوں نے کس حال تک پہنچا دیا کہ آج ہر دوسرا پاکستانی ملک چھوڑنا چاہتا ہے اور اپنا مسکن کہیں اور بنانا چاہتا ہے جو کہ ایک تکلیف دہ عمل ہے۔میری فلائٹ صبح 3.30ایمیریٹس براستہ دبئی تھی۔ دبئی پہنچ کر ساڑھے تین گھنٹے کا قیام تھا۔(جاری )