9مئی حملے سنگین ، یاد نہیں پہلے ایسا ہوا ہو، ٹرائل منصفانہ چاہئے : چیف جسٹس 


اسلام آباد(خصوصی رپورٹر)سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کےخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ9 مئی کو ہونے والے حملہ بلاشبہ سنگین ہیں،ایسے حملے کبھی نہیں ہوئے ۔اٹارنی جنرل نے کہا ہے 9 مئی کے واقعہ پر فوج نے لچک کا مظاہرہ کیا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حملے کئے گئے۔پرتشدد واقعات میں مجموعی طور پر 2.5 ارب روپے کا نقصان ہوا۔سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پرسماعت چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجربینچ نے کی۔سماعت کے آغاز میں ہی اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے 9 میں حملوں کی تفصیلات عدالت میں پیش کیں۔ اٹارنی جنرل نے 9 اور 10 مئی کے واقعات کی تصاویر بھی عدالت میں پیش کیں۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 9 مئی کو ملک بھر میں فوجی تنصیبات پرتقریبا ًایک ہی وقت میں حملے کئے گئے۔پنجاب میں 62 جگہوں پر حملہ کیا گیا جس میں 52 افراد زخمی ہوئے۔149 گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر ون پر حملہ کر کے حملہ آور اندر داخل ہوئے، فوجی مجسمے کو توڑا گیا۔ کورکمانڈرہاو¿س میں مسجد کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے مزید کہا کہ فوجی افسران کی پولیس کی طرح مظاہرین سے نمٹنے کی تربیت نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوجی صرف گولی چلانا جانتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجی افسران کو اس طرح کے جتھوں کو منتشر کرنا نہیں سکھایا جاتا۔اٹارنی جنرل اٹارنی جنرل نے ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کی استدعا بھی کردی۔ کہا سپریم کورٹ ان وجوہات کی بنا پرفل کورٹ تشکیل دیکر مقدمے کی سماعت کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں ایسا پہلی بار ہوا کہ عوام نے فوجی تنصیبات پرحملے کیے، درخواست گزاروں نے جو نکات اٹھائے ان پر بھی بات کریں، سیکشن 7 کے تحت ملٹری کورٹس میں سزا کتنی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکشن 7 اور 9 کے تحت ملٹری عدالتوں میں سزا 2 سال قید ہے، چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا یہی سزا زیادہ سے زیادہ بنتی ہے؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جی یہی سزا بنتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عام عدالتوں میں تو پھر سزا زیادہ بنتی ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لاہور کے مقدمہ میں 302 کی دفعہ بھی شامل ہے۔جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ نو مئی واقعات میں کتنے افراد جاں بحق ہوئے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کوئی فوجی اہلکار شہید نہیں ہوا۔جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کوئی شہادت نہیں ہوئی تو 302 کی دفعہ کیسے لگ گئی؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس بات کا جواب پنجاب اور کے پی کے ایڈووکیٹ جنرل دے سکتے ہیں۔ جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں اپیل کا حق دینا ہے توقانون سازی سے دیں، آپ یہ چیز عدالت سے کیوں مانگ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو مطمئن کرنا ہو گا کہ ٹرائل کے بعد اپیل کاحق ہو گا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین کے تحت بنی کسی عدالت میں اپیل کا حق ملے گا یا نہیں سوال یہ ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ نے جومواد ریکارڈ پر رکھا وہ تفتیش کی بنیاد بنے گا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکشن 3 کے معاملے پر حکومت سے ہدایت لیکرعدالت کوآگاہ کرونگا، جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آپ نے جوڈیٹا پیش کیا اسکے حقائق،الزامات کی نوعیت بہت سنگین ہے۔ جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی نے کہا کہ فیصلوں میں ملٹری کورٹس صرف اتنا ہی لکھتی ہیں کہ جرم ثابت ہوا یا نہیں، چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا فوجی عدالتوں کے فیصلے میں تفصیلی وجوہات ہوں گی؟ کہا سول قوانین کے تحت زیادہ سنگین سزائیں موجود ہیں۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اب آپ آئینی نکات اٹھا رہے ہیں، 9 مئی کے حقائق کے بعد یہ بتائیں کہ کیسے ٹرائل منصفانہ ہوں گے؟ اگر راولپنڈی بار کیس میں فوجی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق تھا تو ٹرائل کے خلاف اپیل کاحق کیوں نہیں ہوسکتا؟مجھے نہیں یاد کہ اس طرح کے حملے کبھی پہلے فوجی تنصیبات پرہوئے ہوں، بلاشبہ 9 مئی کو ہونے والے حملے بہت سنگین نوعیت کے ہیں، گرفتار افراد ٹرائل میں جانے کو تیار ہیں لیکن ٹرائل منصفانہ ہونا چاہیے۔جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ آئین ہرشخص کو بنیادی حقوق کا تحفظ دیتا ہے، موجودہ کیس میں بھی بنیادی حقوق کی فراہمی اہم سوال ہے، تمام گرفتار افراد کے بنیادی حقوق اس پورے عمل میں محفوظ ہونے چاہیے تھے،گرفتار افراد کے بارے میں معلوم ہی نہیں کہ وہ کہاں ہیں اور نہ ان کے نام پبلک کیے گئے۔جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے کہا کہ ملٹری کورٹس فیصلوں میں صرف اتنا ہی لکھتی ہیں کہ جرم ثابت ہوا یا نہیں۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ کیا فوجی عدالتوں میں تفصیلی وجوہات ہوں گی؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ حکم دے گی تو تفصیلی وجوہات بھی فوجی عدالتوں کے فیصلے میں شامل ہوں گی۔بعد ازاں عدالت نے وفاقی حکومت سے بذریعہ اٹارنی جنرل ہدایات طلب کرتے ہوئے کہا کہ صرف محدود کیسز کیلئے اپیل کا حق فراہم کرنے کیلئے ہدایات لیکر آئیں، بتائیں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل پر سزا کتنی ہوگی، سویلین کوملٹری کورٹس میں ٹرائل کے بعد موثر اپیل کا حق ملے گا یا نہیں؟ اٹارنی جنرل کو کل تک جواب دینے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت جمعہ کی صبح ساڑھے 9 تک ملتوی کردی۔
نو مئی کیس 

ای پیپر دی نیشن