امیر محمد خان
خیال تھا کہ اس دفعہ میں مقروض قوم کا حالت زار اور حکمرانوں کی عیاشیاں،معاشی استحکام ، عدم منصوبہ بندی پر کچھ تحریر کرونگا ستر سالوں سے حکمرانوں نے نہ صرف پوری قوم کو بلکہ آنے والی نسل کو بھی مقروض پیدا ہونے پر مجبور کردیاہے ، میرے سامنے ایک انگریزی میگزین میں شائع شدہ مضمون ہے جس میں ہماری عدم منصوبہ بندی اور شاہ خرچیوں کا معمولی ذکر ہے یہ مضمون خاص طور پر جدہ میں پاکستان قونصلیٹ کے اخراجات اور شاہ خرچیوں کا ہے جسے انشااللہ آئندہ ہفتے تحریر کرونگا جس سے اندازہ ہوگا کہ بیرون ملک جہاں، اخراجات ڈالرز میں ہوتے ہیں ہماری نوکر شاہی اور پاکستان میں خواب خر گوش کے مزے لینے والے حکمراں توجہ ہی نہیں دیتے۔ یہ آج نہیں ہورہا بلکہ سالوں سے ہے لیکن آج ہم ڈالرز کیلئے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں مگر تنخواہ لینے والے اسطرف توجہ نہیں دیتے۔اس وقت میں پاکستان کے سیاسی حالات پر رو لوں۔ اعداد شمار کے ساتھ۔ہم اپنے آپ کو تعلیم یافتہ لوگوں کی فہرست میں ڈالتے ہیں اور بہت ہی سطحی تجزیوں کے بعد ملک کی باگ ڈور سنبھالنے ہر دفعہ طالع آزماوں کے ہاتھ تھما کر ہر تین سال، چار سال یا پانچ سال روتے ہیں،میں جدہ میں عمارتوں کے باہر متعین چوکیداروں کی آراء کو خاطر میں لائے بغیر نہیں چھوڑتا چونکہ انکی بات چیت میں عوام کا اصل چہرہ اور الفاظ و تجزیئے ہوتے ہیں چونکہ وہ دفاتر میں نہیں بیٹھتے انکا کام جو کچھ پڑھے لکھے ہیں اخبارات کا مطالعہ کرنا ، ٹی وی کے ٹاک شوز دیکھنا ، سوشل میڈیا کا نظارہ کرنا ہوتا ہے جب وہ بازار جاتے ہیں تو بازار کے بھائو سے اپنی رائے بناتے ہیں۔ انکی رائے میں مجھے مکمل سچائی نظر آتی ہے مجھے یاد ہے کہ جب 2018 ء کے انتخابات تھے میری عمارت کا چوکیدار پاکستانی نہ تھا بلکہ بنگلہ دیشی تھا میں سمجھتا تھا کہ اسے پاکستانی سیاست کا علم بھی نہ ہوگا ، ٹی وی پر انتخابات کے نتائج دیکھنے کے میں نے گھر سے باہر جاکر وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا چونکہ میرے ملک کے تقدیر کا فیصلہ ہونے جارہا تھا ، میں نے چوکیدار کو بازار روٹی لینے بھیجا ، وہ واپس آیا روٹی لیکر تو اس نے دیکھا کہ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ انتخابی نتائج دیکھ رہا ہوں ، ابھی نتائج آنا شروع نہیں ہوئے تھے ، چوکیدار سے میں نے معذرت کی کہ چونکہ انتخابات کے نتائج آنے والے ہیں اسلئے میں نے اسے بازار جانے کی زحمت دی۔ اس نے جو جواب دیا اس سے میں حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا ، اس نے کہا کہ صاحب سب چھوڑیں ، خان حکومت بنائے گا ، فوج اسکے ساتھ ہے ‘‘ میں نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسے یہ معلومات یا تجزیہ کہاں سے میسر ہوا ،اس نے کہا کہ جناب روٹی تو ہم بھی کھاتے ہیں ، ہم چوکیدار کمیونٹی شام یا رات کو بیٹھ کر چائے اکٹھا پیتے ہیں۔ 2018ء کے اس کامیاب تجزئے کے بعد میں آتے جاتے اپنے چوکیدار جو اب پاکستانی ہے اس چند منٹ سیاست سے آگاہی لیتا ہوں۔کل شام میں نے عمارت کی گیلری سے دیکھا کہ محلے کے چوکیدار خوش گپیوں میں مصروف
ہیں میں کافی کی پیالی گیلری میں لے آیا ، چوکیداروں کے اجلاس میں پاکستان کے مجوزہ انتخابات اور دو اشخاص میاں نواز شریف اور آصف علی ذرداری کی ملاقات موضوع تھا جسکا لب و لباب کچھ یوں تھا :: آصف زرداری خود صدر مملکت بیٹے کو وزیر اعظم بیٹی آصفہ کو
وزیر اعلیٰ سندھ بنانے کے لئے دن رات سرگرداں،نواز شریف خود پانچویں بار وزیر اعظم بننے بیٹی مریم کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کے لیے متحرک،مولانا فضل الرحمان بیٹے کو وزیر اعلی صوبہ سرحد بنانے خود صدر پاکستان بننے کے لئے کوشاں، جب کہ اصل میں فی الحال وزارت عظمیٰ کا موسٹ فیورٹ امیدوار شہباز شریف ہے اور وہ اپنے ساتھ اپنے بیٹے حمزہ کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانا چاہتا ہے۔ دبئی ملاقات و مذاکرات میں نواز شریف اور آصف زرداری یہی معاملات حل کرنا چاہ رہے تھے کہ کئی روز کی سر پھٹول کے بعد بھی اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھ سکا اور نواز شریف کی واپسی پھر غیر معینہ مدت تک ملتوی ہو گئی، نواز شریف پریشر بنانے کے لیے بیٹی سمیت سعودی عرب نکل گیا اور وہ دونوں باپ بیٹی مسلسل تاحال ’’نامعلوم افراد ‘‘ کی فہرست میں شامل ہیں جب کہ بلاول جس نے بطور وزیر خارجہ زیادہ وقت دوسرے ملکوں میں ہی گزارا، بلاول سرکاری دورے اور اجلاسوں میں آصفہ کو ساتھ لیکر جارہے ہیں لگتا ہے اسے سندھ کا وزیر اعلی ضرور بنوائیں گے کسی نے پوچھا کہ وہ بہن کو کس حیثیت سے جاپان لے کر گیا تو جواب آیا کہ جیسے قائد اعظم کے ساتھ فاطمہ جناح ہوا کرتی تھیں۔۔ ان تجزیوں کے دوران یہ پرولتاری چوکیدار سیاسی لیڈارن پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنے ناپسندیدہ لیڈاران غیر پارلیمانی زبان و الفاظ سے بھی نواز رہے تھے یہ انکا frustation تھا جو مہنگائی اور حکمرانوں کی بے ایمانیوں نے انہیں دیا یہ سب کسی ایک جماعت کے ہمدرد نہ تھے اپنی اپنی رائے رائے رکھتے تھے اور انکا لب و لہجہ اس پر غالب تھا ،میں انکی رائے سنکر نماز پڑھنے چلاگیا اور اللہ سے دعاگو ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کر اور اس مرتبہ ان چوکیداروں کا تجزیہ 2018 ء کے انتخابات کی طرح صحیح ثابت نہ ہو ، مجھے خوف آیا چونکہ یہ تو حقیقت ہے کہ 25 کروڑ زندہ لاشوں کی قسمت اور مستقل کے فیصلے کیسے اور کہاں کرنے کی کوششیں ہو ر ہے ہیں؟ملکی ادارے ، الیکشن کمیشن کہاں گئے جو فیصلے آصف زرداری کرینگے۔ شہباز شریف کا فیصلہ کرنا تو بنتا ہے کہ وہ وزیراعظم ہیں اس طرف سے سابق وزیر اعظم نوازشریف بھی کسی فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں اس طرح کے بیانات سے عوام میں ناخوشگواری کا عنصر ملتا ہے چونکہ قدم قدم پر عوام کو دکھ اٹھانا پڑتا ہے ، ایک سال حکومت عوام کو ’’لارا لپا‘‘دیتی رہی انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق ہونگیں، اربوں روپیہ مردم شمار پر خرچ بھی ہوا ، مگر ہم کسی بھی شرم سے عاری ہیں شرم کرنا ہماری لغت کا حصہ ہی نہیں اربوں روپیہ ڈبو کر مردم شماری شائد ہوئی نہیں صرف مختلف شہروںمیں اپنی چند نشستوں کیلئے یہ لوگ اپنی عوام کی صحیح گنتی بھی کرنے سے قاصر ہیں سیاسی جماعتوں کا رخ اور ٹارگیٹ پنجاب ہے ، خاص طور پر پی پی پی کا چونکہ گزشتہ 50سال سے تاحال وہ پنجاب میں اپنا ووٹ بنک نہ بنا سکی ، اب سابق صدر آصف علی زرداری اور انکی جماعت سے تعلق رکھنے والے عوام کی توجہ اپنی طرف کرارہے ہیں کہ ’انتخابات کب ہونگے ، اسمبلیاں کب ٹوٹیں گی اسکا فیصلہ آصف علی ذرداری کرینگے کوئی تو پوچھے وہ کیوں اور کیسے ؟؟؟ایک طرف پی پی پی کی بات چیت سیٹ ایڈ جسٹمینت کی مسلم لیگ ن چاہتی ہے دوسری طرف پروپیگنڈہ مہم کے طور پر ن لیگ کے اراکین کی پی پی پی میں شامل ہونے کی خبریں بھی چلوائی جارہی ہیں۔دوسری طرف استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ بھی پی پی پی چند نشستوں کیلئے تعلقات پیدا کررہی ہے ، پی پی پی کے پاس فروخت لیئے انکی دکان میں صرف اور صرف سندھ کی نشستیں جسکے عوض و ہ پنجاب میں داخل ہونے کیلئے مسلم لیگ ن یا استحکام پارٹی کا سہارا ڈھونڈ رہے ہیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ توایک نعرہ ہے جو کبھی وفا نہیں ہوتا۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ اقتدار کے بھوکوں کو ہضم ہی نہیں ہوتی کون سیٹ چھوڑتا ہے ؟؟
ہماری مضحکہ خیز پالیسی ، قرض لیکر قرض ادا کردو
Jul 20, 2023