الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ادارے نے اپنی لیگل ٹیم کو ہدایات بھی جاری کر دی ہیں کہ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے پر عملدرآمد میں کسی بھی حوالے سے رکاوٹ ہے تو بتایا جائے تاکہ مزید رہنمائی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جا سکے۔ البتہ الیکشن کمیشن کو ایک سیاسی جماعت کی جانب سے تنقید پر مسئلہ ضرور ہے۔ یہ سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے اور پی ٹی آئی کی طرف چیف الیکشن کمشنر پر عدم اعتماد پرانا مسئلہ ہے اور آج تک قائم ہے۔ بہرحال الیکشن کمیشن آف پاکستان کا مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ اداروں میں باہمی احترام، آئینی و قانونی حدود میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی کے تحت آگے بڑھنا ہو گا۔ اعلی عدلیہ کے فیصلوں عملدرآمد اور ملکی مفاد کو سامنے رکھ کر ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ کاش کہ سیاسی قیادت بھی یہ سمجھ جائے۔ ویسے سیاسی قیادت کی بالخصوص گذرے بیس برسوں کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو ملکی مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ سیاسی قیادت کی نااتفاقی اور مسلسل قومی مفاد کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے آج ملک میں غربت اور مہنگائی ہے، معیشت ہچکولے کھا رہی ہے، آمدن و اخراجات میں جیسے مسائل ہمارے لیے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔
دوسری طرف امن و امان کے حوالے سے بھی ہمیں شدید مسائل کا سامنا ہے اور اس معاملے میں ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند بڑا مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ اب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ نور ولی محسود کی خفیہ کال سامنے آئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس خفیہ کال میں نور ولی محسود پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے ہدایات جاری کرتے ہوئے امن و امان کی صورتحال بگاڑنے کے لیے سرکاری سکول یا ہسپتال کو دھماکے سے اڑانے کی باتیں کر رہا ہے۔ یہ وہی امن دشمن ہیں پاکستان برسوں سے جن کے خلاف کام کر رہا ہے۔ آرمی پبلک سکول پشاور میں بھی دہشتگردوں نے معصوم بچوں کا نشانہ بنایا تھا اب ایک مرتبہ پھر یہ امن دشمن حرکت میں ہیں۔ ظالم دہشت گرد بچوں، مریضوں، فوجیوں اور پولیس والوں کو نشانہ بنانے کی کوششوں میں ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ اس اہم ترین معاملے میں بھی سیاسی قیادت تقسیم ہے۔ دفاعی ادارے بالخصوص افواج پاکستان اور پولیس کے جوان اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے ان دہشتگردوں کو ختم کرنے کے لیے دن رات ایک کر رہے ہیں۔ افغان حکومت کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اگر وہ آگ لگانے والوں کی حمایت کریں گے تو یہ آگ سب کو لپیٹ میں لے گی۔
جمہوری نظام میں غیر جمہوری اور غیر سیاسی فیصلے ہی نظام کا بیڑہ غرق کرتے ہیں۔ اداروں کے مابین تصادم نہیں ہونا چاہیے لیکن اداروں کو بھی اپنی آئینی و قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، آرٹیکل 6 یا اس طرح کے دیگر اقدامات سے دور رہنا چاہیے، جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں پر پابندی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی تمام کوششیں بھی آئینی و قانونی حدود کے اندر رہ کر ہی ہونی چاہییں ۔ حکومت کسی بھی قسم کی قانون سازی چاہتی ہے تو اس سلسلہ میں اپوزیشن کو ساتھ ملانا چاہیے ۔ ملک کو سیاسی طور پر آگے بڑھنا چاہیے، دفاعی ادارے، عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ سمیت سیاسی قیادت کو بھی اپنی داریوں کا احساس کرنا ہو گا ۔ ریاست کے مفادات کو ہر حال میں ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ ملک میں ایسے قوانین کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے جن سے کسی ایک سیاسی جماعت کو فائدہ ملنے کا تاثر ہو یا کسی خاص طبقے کو فائدہ پہنچانے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ قانون سازی خالصتا ملک کے لگ بھگ پچیس کروڑ انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہونے چاہئے۔ ایسے قوانین جو صرف پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی یا پاکستان تحریک انصاف یا پھر کسی اور سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچا رہے ہوں۔ پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی بحث مباحثے کے بعد اتفاق رائے سے ہونی چاہیے۔ ملک کو سیاسی طور پر ہی آگے بڑھنا چاہیے۔ ریاستی مفادات سب سے اہم ہیں، کسی بھی قسم کی قانون سازی بھی ریاستی مفاد کے خلاف نہیں ہو سکتی اس کا احساس سب کو ہونا چاہیے۔
آج سب کہہ رہے ہیں کہ ملک غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے لیکن کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ اس غیر یقینی میں کس کس کا کردار ہے۔ ویسے تو سب اپنی اپنی جگہ ذمہ دار ہوں گے لیکن سب ایک دوسرے پر ملبہ ڈال کر ایک طرف نکلنے کہ ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ کوئی بچ نکلے کیونکہ تاریخ بہت ظالم ہے، یہ ہر وقت ہمارے سامنے آتی رہتی ہے اور ماضی کے واقعات و فیصلے ہمیں یاد دلاتے رہتے ہیں کہ کب کون کیا کر رہا تھا۔ کاش ہم ماضی کے واقعات سے سبق سیکھتے تو آج ان حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا، کاش ہم سبق سیکھتے۔
ایک طرف ریاستی اداروں میں تصادم کی خبروں کی وجہ سے سانس بند ہے تو دوسری طرف مہنگی بجلی نے بیماریاں اور موت سستی کر دی ہے، ہر ماہ بجلی کے بلوں کو دیکھ کر شہری ذہنی اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں، مختلف شعبوں میں ملک کی خدمت کرنے والی معروف شخصیات کی ہمت بھی مہنگی بجلی کے سامنے جواب دے گئی ہے۔ بالخصوص شوبز سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات کے ویڈیو میسجز اور انٹرویوز یہ بتا رہے ہیں کہ اس موسم گرما میں سانس لینا کتنا دشوار ہوا ہے۔ چونکہ بجلی کی قیمت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اگر کوئی ساٹھ ستر سال کا شہری جس کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہے وہ محدود پنشن پر گذارا کرتا ہے یا مخصوص آمدن پر زندگی گذار رہا ہے اس کے لیے ایئر کنڈیشر چلانا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف لوڈ شیڈنگ تنگ کرتی ہے تو دوسری طرف ہر وقت آئندہ آنے والے بل کے خوف سے خون سوکھتا رہتا ہے۔ ایک تو کسی بھی حکومت نے توانائی کے متبادل ذرائع پر کام نہیں کیا اور دوسرا آئی پی پیز سے ایسے ظالمانہ معاہدے کیے کہ پاکستان کا ہر شہری آج بھی ان معاہدوں کی سزا بھگت رہا ہے۔ یعنی کیا ظلم ہے کہ سالانہ دو ہزار ارب کی ادائیگیاں ہوتی ہیں۔ یعنی بجلی بنے یا نہ بنے سالانہ دو ہزار ارب ادا کیے جاتے ہیں اور یہ رقم پاکستانیوں کی جیب سے نکلتی ہے پھر حکومت کہتی ہے کہ ٹیکس اکٹھا نہیں۔ خدا کے بندو ایک ہی جگہ سے عام شہری سالانہ دو ہزار ارب بغیر بجلی استعمال کیے ادا کرتے ہیں۔ ان پیسوں کا تو کوئی حساب لو، جس نے یہ معاہدے کیے ہیں اور جو جو اس ظلم میں شریک ہے ان کی جائیدادیں ضبط کریں اور یہ پیسے ادا کریں۔ نجانے وہ کون لوگ تھے جنہوں نے یہ ظالمانہ معاہدوں پر کام کیا۔ یقینا وہ ملک اور عوام دوست تو ہرگز نہیں ہو سکتے۔ انہیں اس ملک کے وسائل سے محروم لوگوں کا خیر خواہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔ میں نے پہلے بھی آئی پی پیز معاہدوں پر لکھا ہے لیکن جب کبھی مہنگی بجلی کی بات ہوتی ہے یا اس حوالے سے کوئی اور چیز سامنے آتی ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ایک مرتبہ پھر ایک سابق وفاقی وزیر نے آئی پی پیز کے ظالمانہ اور بیرحمانہ معاہدوں پر لب کشائی کی ہے۔ سابق نگران وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے آئی پی پیز معاہدوں پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ہر صارف ان بددیانت معاہدوں کی وجہ سے فی یونٹ چوبیس روپے اضافی دینے پر مجبور ہے ۔
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کو مخاطب کرتے ہوئے گوہراعجاز کا کہنا تھا کہ پچھلے دو سال میں تیئیس ہزار چار سو میگاواٹ پر مبنی آئی پی پیز کی پیداوار میں سے پچاس فیصد سے بھی کم استعمال ہوا۔ پانچ ہزار میگاواٹ کے درآمدی کوئلے پر مبنی آئی پی پیز پاور پلانٹس نے گزشتہ دو سال میں پچیس فیصد سے بھی کم صلاحیت کا استعمال کیا، پچیس فیصد کم کیپسٹی پر چلنے کے باوجود فل کیپسٹی چارجز یعنی چھ سو بانوے ارب روپے لے رہے ہیں، ونڈ آپریشنز پچاس فیصد سے کم ہیں لیکن فی یونٹ اضافی چارجز کے ساتھ ایک سو پچھہتر ارب روپے جب کہ آر ایل این جی کو پچاس فیصد کم صلاحیت پر چلنیکے باوجود ایک سو اسی ارب روپے دئیے جا رہے ہیں۔ یہ قومی ا لمیہ نہیں تو اور کیا ہے، ان معاہدوں کی وجہ سے پاکستان کے چوبیس کروڑ لوگوں سے سالانہ دو ہزار ہزار ارب روپے کی ادائیگیاں وصول کی گئی ہیں۔
کیا یہ معاہدے لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں ہیں پھر کہتے ہیں صنعتیں بند ہو رہی ہیں، کاروبار بند ہو رہے ہیں، ملک ترقی نہیں کر رہا ، معیشت مضبوط نہیں ہو رہی، قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ خدا کے بندو دیکھو تو تم اس مظلوم قوم کے ساتھ کر کیا رہے ہو۔ کیا ایسے معیشت ترقی کرتی اور کاروبار چلتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔ یہ جو نام نہاد پارلیمنٹ ہے اس میں منتخب نمائندے ہیں ان کے پاس ایک دوسرے پر مقدمات قائم کرنے اور مقدمات ختم کرنے کے علاوہ کوئی کام ہے۔ کیوں یہ بحث پارلیمنٹ میں نہیں ہوتی کیوں پارلیمنٹ میں کوئی بولتا نہیں، کیوں کوئی منتخب نمائندہ یا کوئی بھی حکومت اس حوالے سے آج تک کوئی کام نہیں کر سکی۔ کہنے کو یہ عوام کے ہمدرد ہیں یا تو گوہر اعجاز کو غلط ثابت کریں یا پھر بے بسی تسلیم کریں اور حکومت چھوڑ دیں۔ کیا ظلم ہے۔
وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری کہتے ہیں کہ انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کے معاہدوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ عوام پر بوجھ ختم کرنے کے لیے جو ہمارے فائدے میں نہیں ہوں گے انہیں خیر باد کہہ دیں گے۔ بجلی کے معاہدوں پر یکطرفہ کارروائی نہیں کر سکتے، حکومت پاکستان نے آئی پی پیز کو گارنٹیز دے رکھی ہیں، ہم ایسی قوم ہیں جو عالمی معاہدوں کی پاسداری کرتی ہے۔
اویس لغاری کی باتوں پر مجھے حیرانی سے زیادہ دکھ ہے یعنی چند لائنوں کے بیان میں بھی وہ وضاحت کے ساتھ بات کرنے میں ناکام ہیں۔ یعنی ایک جگہ وہ کہہ رہے ہیں کہ معاہدوں پر نظر ثانی کر رہے ہیں دوسری جگہ وہ کہہ رہے ہیں کہ یکطرفہ کوئی کارروائی نہیں کر سکتے کیونکہ ہم معاہدوں کی پاسداری کرنے والی قوم ہیں۔
جناب عالی یہ پیسہ اگر تو پارلیمنٹیرینز کی جیب سے جاتا ہے تو آپ معاہدوں کی پاسداری کرتے رہیں اگر بوجھ عام آدمی پر ہے اور اس بوجھ کی وجہ غلط معاہدے ہیں تو معاہدے کرنے والے آپ کے اردگرد موجود ہیں انہیں پکڑیں جنہوں نے معاہدے کیے ہیں ان کے پاس یہ ظالمانہ معاہدے ختم کرنے کے راستے بھی موجود ہوں گے۔ آئی پی پیز پاکستانیوں کا بہت خون پی چکی ہیں، بہت ہو چکا اب ان سے جان چھڑائیں۔ جو جتنی بجلی بنائے اتنے پیسے وصول کرے یہ تو کوئی معاہدہ نہیں کہ بجلی کم بنائی جائے اور پیسے زیادہ وصول کیے جائیں۔
آخر میں پروین شاکر کا کلام
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا
ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا
اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر
بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا
میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
شہر کے شہر کو مرا واقف حال کر دیا
چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا
مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا