حقیقی آزادی کے راستے

عالمی سطح پر دھماکہ خیز خبر یہ ہے کہ چین نے تھائی لینڈ کی دمچی پر نہر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ 135 کلومیٹر لمبی یہ نہر خلیج بنگال کو خلیج تھائی لینڈ بلکہ سچ پوچھئے تو بحیرہ جنوبی چین سے ملا دے گی اور چین کو ایشیا، افریقہ ، یورپ سے سمندری تجارت کیلئے آبنائے ملاکا جانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ لگ بھگ 12 سو کلومیٹر سفر کم ہو جائے گا اور چین کو بے پناہ بچت ہو گی۔ 
نہر پر 58 ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔  58 ارب ڈالر کتنے ہوتے ہیں، ہم پاکستانی کیا جانیں۔ بہرحال ریاضیاتی فارمولا سمجھنے کیلئے یہ ہے کہ ہم 58 برس تک آئی ایم ایف سے جتنی رقم لیں گے، اس کا کل مجموعہ 8 ارب بنتا ہے۔ 28 ارب روپے سے نہر کی تعمیر ہو گی، 30 ارب سے انفراسٹرکچر بنے گا۔ 
_____
دمچی سے مراد زمین کی وہ پتلی اور لمبی پٹّی ہے جو تھائی لینڈ کے مین لینڈ سے نکل کر ملایشیا کے علاقے جزیرہ نمائے ملایا تک چلی گئی ہے۔ ملایا آبنائے ملاکا کے شمالی سرے پر ہے، جنوب میں انڈونیشیا کا جزیرہ سماٹرا ہے اور آبنائے ملاکا ان دونوں کے بیچ میں ایک تنگ راستہ ہے جو جہازوں کی بہت زیادہ آمدورفت کی وجہ سے ’’ٹریفک جام‘‘ کا منظر پیش کرتا ہے۔ تھائی لینڈ کی دمچی میں اس نہر کے بننے سے آبنائے ملاکا میں رش کم ہو جائے گا۔ تھائی لینڈ ہی نہیں، افریقہ، ایشیا، یورپ سبھی ممالک کے تجارتی اداروں کو فائدہ ہو گا۔ اس وقت تھائی عوام اس نہر کے بارے میں منقسم ہیں۔ آدھے حامی، آدھے مخالف ہیں لیکن تھائی لینڈ کی طاقتور فوج اس منصوبے کی حامی ہے۔ 
امریکہ اس خبر پر سخت پریشان ہے اور علاقائی ممالک سے درخواست کر رہا ہے کہ وہ اس نہر کی تعمیر کا راستہ روکیں۔ علاقائی ممالک میں ویت نام بھی آتا ہے جو امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی اور چین کا سخت دشمن ہے۔ برسبیل تذکرہ، آج شاید بہت سے لوگوں کو یقین نہ آئے لیکن 1970ء کی دہائی میں دو انہونیاں ہو چکی ہیں۔ پہلے چین نے ویت نام کے شمال کے کچھ علاقے پر قبضہ کر لیا، ویت نام نے جنگ کی، چین کو شکست دے ڈالی اور اپنا علاقہ واگزار کرا لیا۔ آپ کو یقین نہیں آ رہا ہو گا لیکن کیا کیجئے یہ ہو چکا ہے۔ دوسری انہونی یہ ہوئی کہ چین نے اپنی پراکسی کھمیرج کے ذریعے پڑوسی ملک کمبوڈیا (آج کا کمپوچیا) پر قبضہ کر لیا۔ ویت نام نے پھر جنگ لڑی اور چین کو شکست دے کر کمبوڈیا کوآزاد کرایا۔ 
چین ایک سپرطاقت ہے، ویت نام ایک چھوٹا سا ملک، دنیا کی تاریخ میں ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں اگرچہ بہت کم۔ امریکہ اسی لئے ویت نام پر انحصار کر رہا ہے لیکن ویت نام کیا کر سکتا ہے، یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی۔ 
دوسرے علاقائی ممالک برما، انڈونیشیا ، ملایشیا اور لائوس ہیں۔ برما اور لائوس چین کے اتحادی ہیں۔ ملایشیااور انڈونیشیا ہی پھر باقی رہ گئیجو براہ راست اس نہر سے منفی طور پر متاثر ہوں گے لیکن وہ امریکہ کے بارے میں اتنے پرجوش نہیں رہے جتنے ماضی میں ہوا کرتے تھے (سوہارتو گئے، مہاتیر بھی قصّہ ماضی بن گئے)۔ 
امریکہ اب تھائی عوام کو ڈرا رہا ہے۔ وہ انہیں بتا رہا ہے کہ نہر بن گئی تو دمچی دو حصوں میں بٹ جائے گی اور نہر کے جنوب میں دمچی کے لوگ جو مسلمان ہیں ، ان کے ملک سے کٹ کر ملایشیا میں شامل ہو جائیں گے (تھائی لینڈ کی دمچی میں طویل عرصے سے، پتانی کے مسلمان علیحدگی کی تحریک چلا رہے ہیں)۔ 
دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ تھائی لینڈ سے امریکہ بہرحال وہ سلوک تو نہیں کر سکتا جو اس نے عراق اور افغانستان سے کیا۔ 
_____
اس نہر سے اس زمینی نہر کی یاد آ گئی جو بھولا بسرا قصّہ بنتی جا رہی ہے۔ میری مراد سی پیک سے ہے۔ 
پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا، امریکہ نے نواز شریف کو سزا دے کر معاملہ نمٹا دیا یعنی کڑوا گھونٹ بھر کر ایٹمی طاقت کو عملاً تسلیم کر لیا۔ نواز شریف نے موٹروے بنائی، اس کی سزا بھی نواز شریف کو ملی اور مقدمہ ختم ہو گیا۔ لیکن پھر نواز شریف نے سی پیک کا ڈول ڈالا، امریکہ اس بات کو معاف کرنے کیلئے تیار نہیں اور 2014ء سے لے کر اب تک جو افراتفری ہے، یہ اسی خشکی والی نہر (خشک نائے) کا نتیجہ ہے۔ 
معلوم ہوا سی پیک ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہے۔ ایٹم بم بالآخر قبول کر لیے گئے لیکن سی پیک کو برداشت نہیں کیا جا رہا۔ 2014ء سے سی پیک پر جو پائوں رکھا گیا، وہ ابھی تک اٹھا نہیں ہے۔ عمران حکومت کے خاتمے سے جو امید ہوئی تھی کہ اب سی پیک بحال ہو گا، وہ شہباز سرکار نے مٹی میں ملا دی۔ شہباز حکومت ایسی بے سمت ہے کہ دوسروں کو کنفیوز کرنے والا چین بھی کنفیوز ہو کر رہ گیا ہے۔ غلط بیانی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے احسن اقبال ہرچند کہتے رہیں کہ سی پیک پر کام ہو رہا ہے لیکن سب کو پتہ ہے کہ اس پر پائوں رکھا ہوا ہے اور اب کی بار یہ پائوں عمران کا نہیں شہباز کا ہے۔ 
پاکستان کی مثال اس کنگلے غریب کی ہے جس کا واحد اثاثہ ورثے میں ملا مکان ہے۔ کرائے پر چڑھ جائے تو دو وقت کی روٹی ملے۔ سی پیک سے 80 فیصد فائدہ چین کا ہے، ہمیں صرف کرایہ ملے گا، ہماری گزر اوقات بلکہ ہماری اوقات کیلئے یہ بھی بہت ہے لیکن کیا اندر والے، کیا باہر والے ، مکان کرائے پر چڑھنے ہی نہیں دے رہے۔ 
_____
اعلیٰ حکام کا کوئی اجلاس میڈیا مالکان کے ساتھ ہوا جس میں حکام نے اپنی تشویش بتائی کہ 9 مئی کے مجرموں کو الیکٹرانک میڈیا، باجماعت، ہیرو بنا کر پیش کر رہا ہے۔ 
انوکھی بات ہے کہ ایسا اجلاس کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیدا ہوئی۔ دنیا کے کسی اور ملک، کسی بھی ملک کو ذہن میں لائیے، چلئے ، بھارت ہی کو لے لیجئے وہاں بلوائیوں کے ہجوم جی ایچ کیو، چھائونیوں، فوجی ہوائی اڈّوں، جرنیلوں کے گھروں پر حملے کرتے، عمارتوں اور جنگی طیاروں کو آگ لگاتے اور وہ سب کچھ نہیں، اس کا عشر عشیر بھی کرتے جو ہمارے ہاں 9 مئی کو ہوا تو کیا ہوتا؟۔ عوام ان بلوائیوں کی تکا بوٹی کر دیتے، الیکٹرانک میڈیا حملہ آوروں کو ملک دشمن قرار دیتا، عدالتیں ان کا ناطقہ بند کر دیتیں۔ ہمارے ہاں تو سب الٹا ہوا۔ الیکٹرانک میڈیا باجماعت ہو کر، سیسہ پلائی دیوار بن کر انہیں ہیرو بنا رہا ہے، عدالتیں کہہ رہی ہیں خبردار کسی نے ان کو ہاتھ بھی لگایا…انوپم کھیر کی ایک فلم یاد آ گئی…اس کی بیٹی آشنا کے ساتھ بھاگ گئی جس پر انوپم گھیر نے ’’آھا میری بیٹی بھاگ گئی، آھا میری بیٹی بھاگ گئی کے مستانہ وار نعرے لگا کر جشن منایا اس لئے نہیں کہ بیٹی سے جان چھوٹی ، بلکہ اس لئے کہ اس نے ’’حقیقی آزادی‘‘ کا راستہ چن کر ظالم سماج کو تھپڑ رسید کیا اور ساتھ ہی محلے بھر بلکہ شہر بھر کی بیٹیوں کو بھی حقیقی آزادی کا راستہ دکھایا۔

ای پیپر دی نیشن