ڈاکٹر مہاتیر محمد سے لندن میں ملاقات

ملکی اور غیرملکی سربراہان‘ سیاست دانوں‘ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اعلیٰ شخصیات کے انٹرویوز اور ان سے کی جانیوالی سیاسی و غیرسیاسی گفتگو کو بذریعہ اخبار‘ رسائل‘ ٹی وی‘ وٹس ایپ‘ ’’لنکڈاِن‘‘ فیس بک‘ انسٹاگرام اور بذریعہ وی لاگ عوامی‘ سیاسی اور مذہبی حلقوں تک پہنچانا ہر منجھے اور ’’بونافائڈ‘‘ صحافی‘ کالم نگار کی وہ بنیادی خواہش ہوتی ہے جس سے اسے اپنی فکرو نظر‘ مطالعہ علم اور صحافتی قابلیت کو مزید اجاگر کرنے میں مدد ملتی ہے اور یہی وہ مستند صحافی کے بنیادی اوصاف ہیں جو شعبہ جرنلزم میں قدم رکھنے کیلئے ناگزیر ہیں۔ 
اس تمہید کا سہارا لینے کی ضرورت آج اس لئے محسوس ہوئی کہ اگلے روز وسطی لندن کے ایک اعلیٰ سٹار ہوٹل میں مجھے دنیائے اسلام کی ہردلعزیز شخصیت اور ملائشیا کے سابق وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد سے ملاقات کا اعزاز حاصل ہوا۔ اپنی صحافتی زندگی میں دنیائے باکسنگ کے شہنشاہ محمدعلی کلے مرحوم سے ملاقات کے بعد کسی عالمی اسلامی شخصیت سے ملاقات کا یہ میرا دوسرا موقع تھا۔ اس خصوصی تقریب کا اہتمام برطانیہ میں بین الاقوامی شہرت کے حامل نجی ٹی وی ’’دی اسلام‘‘ کے چینل کے چیئرمین مسٹر محمدعلی ہرا نے کیا تھا جس میں ممتاز قانون دانوں‘ ماہرین تعلیم‘ دانشوروں اور معروف شخصیات سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے بڑی تعداد نے شرکت کی۔
وقت مقررہ پر عزت مآب ڈاکٹر مہاتیر محمد مسٹر محمدعلی ہرا اور اسلام چینل کے سینئر ایڈوائزر سر اقبال سکرانی او بی ای کے ہمراہ ہال میں داخل ہوئے جہاں مہمانوں نے اپنی نشستوں سے اٹھ کر تالیوں سے ان کا استقبال کیا۔ تلاوت قرآن پاک کے بعد کارروائی کا آغاز ہوا۔ چیئرمین اسلام چینل مسٹر محمدعلی نے عزت مآب سابق ملائشین وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کا تعارف کرواتے ہوئے انکی 22 سالہ وزارت عظمیٰ کی شاندار ملکی اور قومی کارکردگی پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ ملائشیا کی مضبوط اکانومی اور عوام کی ڈاکٹر مہاتیر سے غیرمعمولی محبت پر روشنی ڈالتے ہوئے سر اقبال سکرانی نے اپنے تعارفی کلمات میں ڈاکٹر مہاتیر محمد کی طویل خدمات کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔ خطاب کیلئے ڈاکٹر مہاتیر محمد جونہی اپنی نشست سے اٹھے ہال میں بیٹھے معززین نے دوبارہ ان کا تالیوں سے استقبال کیا۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے قرآن پاک کے حوالے سے اپنے خطاب میں کہا کہ مسلمان مجموعی طور پر آج عدم یکجہتی اور بڑی عالمی قوتوں کے محض اس لئے زیراثر ہیں کہ ہم نے قرآن کے حقیقی مفہوم سے نظریں چراتے ہوئے قرآن پاک پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ منافقت‘ ایک دوسرے کی دل آزاری اور اسلام کے حقیقی اصولوں کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ اتحاد و یگانگت کے بغیر مسلم ممالک کا ترقی یافتہ اور بالخصوص مغرب کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنا فوکس صرف اور صرف قرآن پر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر خلوص دل اور نیک نیتی سے عمل پیرا ہوں۔اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر مہاتیر نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ 57 مسلم ممالک کی یہ تنظیم دنیا میں مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم کو تاہنوز ختم نہیں کروا سکی۔ اس کی بڑی وجہ بعض ممالک میں بھی اتحاد کی کمی ہے۔ 
بعض نان مسلم ممالک آج جب مسلمان ملکوں کو معاشی اور اقتصادی طور پر دبائو سے دوچار کر رہے ہیں تو ہماری نئی مسلم نسل کو غلامی کا احساس ہونے لگا ہے۔ آپ ملائشیا کی ترقی اور مضبوط معاشی اور اقتصادی حالات کے بارے میں بھی جاننے کے متمنی ہونگے۔ 99 سالہ عزت مآب ڈاکٹر مہاتیر نے مسکراتے ہوئے کہا! جی ہاں! 99 سالہ ڈاکٹر مہاتیرمحمد کی قابل رشک صحت دیکھتے ہوئے میں بھی حیران ہوا مگر جب انہوں نے یہ کہا کہ جسم کی نشوونما اور درست خوراک سے ہر شخص اللہ تعالیٰ کی جانب سے دی گئی عمر تک زندہ اور تندرست رہ سکتا ہے تو اس ایمان افروز جواب سے حاضرین خوب محظوظ ہوئے۔ بغیر واکنگ سٹک اور کسی سہارے کے، ڈاکٹر مہاتیر محمد نے بتایا کہ ملائشیا کی ترقی اور اقتصادی استحکام کا بنیادی راز سیاست میں ایمانداری‘ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچنے والے نمائندوں کی فرض شناسی‘ عوامی اور ملکی مسائل کے راستہ میں پیدا شدہ رشوت ستانی‘ اقرباپروری اور بیوروکریسی کی ملکی اور سیاسی عدم استحکام کیلئے کھیلی ان چالوں کو بغیر کسی خوف و خطر ناکام بنانا ہوتا ہے جس سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونے کا احتمال ہو۔ ملائشیا کی مضبوط معیشت کیلئے قوم نے میرا بھرپور ساتھ دیا اور یوں میں نے اپنے 22 سالہ Tenure میں اپنے ملک و قوم کی خوشحالی کیلئے ہر وہ ممکن کوشش کی جو عوام کی بہتر معاشی اور اقتصادی حالت کیلئے میں کر سکتا تھا۔ غربت کے خاتمہ اور قرضوں سے نجات کیلئے کسی ملک میں گڈگورننس ناگزیر ہے۔ میری خواہش ہے کہ تمام اسلامی ممالک خوشحالی سے دوچار ہوں۔ میں پھر کہوں گا کہ ہم مسلمانوں کو قرآن پاک سے اپنے ہر مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔ زندگی اور موت پر وہ رب کریم قادر ہے‘ میری اپنی مثال سامنے ہے۔ 99 برس کا ہو چکا‘ 2 مرتبہ دل کا اپریشن بھی ہوا مگر پروردگار نے ابھی تک مجھے زندگی عطا کر رکھی ہے۔ اپنے اس خطاب کے اختتام سے قبل آپکو یہ بھی بتاتا چلوں کہ مظلوم فلسطینیوں پر صہیونی اسرائیل کی بمباری پر بعض مسلم ملکوں کی نیم خاموشی سے دکھ ہی نہیں‘ صدمہ بھی پہنچا ہے۔ افسوس! ہم نے قرآن پاک کا مطالعہ اور وہ احکامات چھوڑ دیئے جن پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے عمل کرنے کا ہمیں حکم دیاگیا ہے۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد کے اس تاریخی خطاب کے بعد حاضرین سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا جس میں بیشتر سوالات دنیا میں مسلمانوں کے کمزور معاشی حالات‘ غریب اور ترقی پذیر ممالک پر صہیونی قوتوں کی یلغار پر کئے گئے۔ میرے کئے اس سوال پر کہ مسلم امہ میں اتحاد و یکجہتی کا بہترین فارمولہ کیا ہو سکتا ہے۔ عزت مآب ڈاکٹر مہاتیر محمد نے مسکراتے ہوئے کہا ’’قرآن پاک کے مفہوم سے آگاہی کہ ہر مسئلے کا آسان ترین حل قرآن پاک میں موجود ہے‘‘۔ آخر میں میں نے ڈاکٹر مہاتیر محمد کو اپنی تصنیف ’’ولایت نامہ‘‘ پیش کی جس پر انہوں نے شکریہ ادا کیا۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...