فقیرا مان جا۔۔۔

Jul 20, 2024

تابندہ خالد

جتنی معافیاں بندہ پاکستانی فقیروں، گداگروں سے مانگتا ہے اتنی ہی اگر خدا سے مانگ لے تو جنت پکی ہے۔ ملک میں کنفرم مہنگائی تو ہے مگر دوکانداروں کی جانب سیخودساختہ مہنگائی نے سب کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ساحر لدھیانوی نے کیا خوب تصویر کشی کی ہے کہ
بدحال گھروں کی بدحالی بڑھتے بڑھتے جنجال بنی
مہنگائی بڑھ کر کال بنی، ساری بستی کنگال بنی
میرے خیال میں سب سے زیادہ پریشان حال طبقہ سفید پوش ہے کہ جس کا ضبط بھی جواب دینے کو ہے۔ موجودہ وقت میں دیہاڑی دار مفلس مردوں (قوام)کی یہ حالت ہے کہ شام کو اپنی فیملی کے سامنے جانے سے جھجک محسوس کرتے ہیں۔ دیہاڑی لگ جائے تو’’ روزی‘‘ اور اگر نہ لگے تو ’’روزہ‘‘ والی کیفیت سے دوچار ہیں۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں وہ کیا جانیں کہ مجبوری کیا ہوتی ہے وہ تو باپ کو بادشاہ سمجھتے ہیں اور بلا تکلف ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ شام کو واپسی پر فلاں فلاں چیز لے کر آنا۔۔۔
کھلونوں کی دکانو راستہ دو 
مرے بچے گزرنا چاہتے ہیں
مفلس لوگوں کے صبر کو ہم سلام عقیدت پیش کرتے ہیں کہ وہ چمٹ چمٹ کر سوال نہیں کرتے اور عزت نفس پر حرف نہیں آنے دیتے۔ جبکہ ان کے برعکس آج کل گداگروں کی اتنی بھرمار ہے کہ ایسا لگتا ہے  جیسے یاجوج ماجوج نکل آئے ہوں۔ ہر مارکیٹ، فوڈ پوائنٹ، ہسپتال، ریلوے اسٹیشن، تعلیمی اداروں حتی کہ قبرستانوں کے باہر بھی گداگر ہاتھ پھیلائے کھڑے ہوتے ہیں۔ مجال ہے کہ آپ کسی فوڈ کارنر پر کچھ کھا رہے ہوں اور وہ اپنی اینٹری نہ ماریں۔ کھانا ہی حلق میں اٹک جاتا ہے کہ وہ بھوکے ہیں اور ہم کھانا تناول فرما رہے ہیں۔ پھر خدائے بزرگ وبرتر کا شکر بجا لایا جاتا ہے کہ اس نے ہم پر اپنی رحمت کا سایہ کیا ہوا ہے۔مانا کہ سوال کرنے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں جیسا کہ ہم اگر کسی سے کسی چیز کا تقاضا کریں تو آداب یا جس سے مانگا جا رہا ہو اس کی نفسیات یعنی پسند و ناپسند کو ملحوظ خاطر رکھ کر ہی مانگنے کی جسارت کی جاتی ہے۔ مگر پاکستانی گداگروں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔
قارئین ایک دور ایسا بھی گزرا کہ جب لوگ فقیروں کی دعا کو اپنے لیے "لکی" سمجھتے تھے۔ فقیر بھی ایسے سادہ ہوا کرتے تھے کہ گویا درویش ہوں۔ وہ دروازوں پر آکر صدا لگایا کرتے تھے اور لوگ حسبِ توفیق آٹا خیرات کر دیا کرتے تھے یا انہیں کھانا کھلا دیا جاتا تھا۔ لیکن عصرِ حاضر میں براہ راست گھروں کے باہر گھنٹیاں بجائی جاتی ہے۔ چاہے آرام کا ہی وقت کیوں نہ ہو۔ اگر ان کی مدد کر دی جائے تو بغیر دعا دیے دفعتاً فرار ہو جاتے ہیں جیسا کہ ہم کوئی ڈاکو ہوں کہ دوبارہ گداگروں سے پیسے واپس لے لیں گے۔ اگر خلاف توقع کم پیسے دئیے جائیں تو کمنٹس ضرور دیں گے۔ "ارے اتنا بڑا گھر۔۔۔ اور دل چھوٹا"۔۔۔" یہ کیا دے رہے ہیں آپ حاجی صاحب"۔۔۔
 قارئین! آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ آج کل کے فقیر پیسے نہ دینے پر گوڈزیلا اور کنگ کانگ جیسا منہ بنا کر بدعا کی دھمکی بھی دے جاتے ہیں۔یہ گداگر صرف ماہر نفسیات ہی نہیں بلکہ ٹھیک ٹھاک اداکار بھی ہوتے ہیں۔ لوگوں کی توجہ اور ہمدردیاں اپنی طرف مبذول کرنے کے یہ سارے ہنر و گر بخوبی جانتے ہیں۔ لیکن ہمیں اپنے بڑوں کی نصیحتیں یاد آ جاتی ہیں کہ سائلین کو مت جھڑکو، انہیں خالی ہاتھ نہ لوٹاؤ وغیرہ۔ قارئین آجکل گداگری مجبوری سے زیادہ ایک گھناؤنے پیشے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ سوشل میڈیا پر مضحکہ خیز وائرل ویڈیو تو آپ نے دیکھی ہوگی جس میں دن بھر مانگنے کے بعد ایک معذور گداگر وہیل چیئر پر اپنی بستی میں داخل ہوتا ہے اور وہیل چیئر پارک کرکے صحیح سلامت پیدل چل کر اپنی جھونپڑی میں داخل ہو جاتا ہے۔ کڑوا سچ تو یہ ہے کہ لوگوں نے محنت کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ قومیں محنت سے بنتی ہیں۔ یہ گداگر مصنوعی طور پر زخم لگاتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے واقعی گہرے زخم ہیں۔ یہ سب کام نہ کرنے کے بہانے ہیں۔ اب بندہ کس پر اعتماد کرے اور کس پر نہ کرے۔۔۔ 
پاکستان کے قانون کے مطابق بھی بھیک ماننا قابل سزا جرم ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ بھکاریوں کے لیے کوئی قانون بنائے اور انہیں اس جرم سے روکے۔اس سال سعودی حکومت کی جانب سے مکہ مکرمہ میں رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بھیک مانگتے 4 ہزار 345 بھکاریوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ ڈائریکٹر ادارہ امن عامہ کی رپورٹ کے مطابق 90فیصد بھکاریوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔

مزیدخبریں