پابندی لگانے کا غیر دانشمندانہ فیصلہ

پاکستان میں اشتعال غصہ انتشار اور سیاسی عدم استحکام عروج پر ہے- معاشی بحران سنگین ترین ہو چکا ہے- ان حالات میں سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کا تقاضا یہ تھا کہ سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات اٹھائے جاتے- افسوس حکومتی جماعت نے اس صورت حال کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی منظوری وفاقی کابینہ سے حاصل کی جائے گی-یہ فیصلہ شکست خوردہ مایوس ذہن کی تخلیق ہے۔ خصوصی نشستوں کے بارے میں سپریم کورٹ کا  فیصلہ وفاقی حکومت اور اس کے سرپرستوں کو ہضم نہیں ہوسکا - وفاقی سیکرٹری اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے تحریک انصاف پر جو چارج شیٹ لگائی ہے اس کے مطابق یہ جماعت 9 مئی 2023ء کے واقعات میں ملوث ہے جو ریاست پر حملہ قرار دیے جا رہے ہیں- چارج شیٹ کے مطابق تحریک انصاف کے بانی چیئرمین سائفر کیس میں ملوث ہیں-جس کی بنیاد پر پاکستان کے بڑے ملکوں کے ساتھ سفارتی تعلقات کشیدہ ہوئے اور سابق وزیراعظم عمران خان نے سیاسی مقاصد کی خاطر ریاستی راز ہی افشا کردیے- تحریک انصاف پر ممنوعہ فارن فنڈنگ کا الزام بھی لگایا گیا ہے جو ریاست کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے-وفاقی وزیر اطلاعات نے الزام عائد کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 2022ء میں اپنی حکومت کے خلاف آئینی عدم اعتماد کی تحریک کو روکنے کے لیے غیر آئینی اقدامات اٹھائے اور اسمبلی ہی توڑ دی جس میں عمران خان کے علاوہ قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری اور صدر مملکت عارف علوی نے کردار ادا کیا لہذا ان سب کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کے مقدمات چلائے جائیں گے-امریکہ نے تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے ارادے پر تشویش کا اظہار کیا ہے-
پاکستان کی بدقسمت تاریخ میں سیاسی مخالف جماعتوں پر پابندی لگانے کی مثالیں پہلے ہی موجود ہیں-1954ء میں کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگائی گئی-جنرل اکبر خان نے مبینہ طور پر کیمونسٹ پارٹی کے ممتاز راہ نماؤں فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر کے تعاون سے اس وقت کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی جس کے نتیجے میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی عائد کر دی گئی-
1971ء  میں جنرل یحییٰ خان نے شیخ مجیب الرحمن اور ان کی جماعت عوامی لیگ پر پابندی عائد کر دی اور ان پر الزام لگایا کہ ان کی سرگرمیاں ریاست کے خلاف غداری کے زمرے میں آتی ہیں-1975ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کر دی ان پر ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات تھے- 2021 ء میں پنجاب حکومت نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کر دی اور ان کی سرگرمیوں کو ریاست مخالف قرار دے دیا-پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ سیاسی جماعتوں پر پابندیوں سے مثبت اثرات اور نتائج کبھی نہیں نکل سکے-تاریخ کے تناظر میں تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے کی مخالفت کی جا رہی ہے-وفاقی حکومت کے پاس تحریک انصاف کے خلاف ایسی ٹھوس اور مستند شہادتیں موجود نہیں ہیں جن کی بنیاد پر سپریم کورٹ تحریک انصاف پر پابندی کا فیصلہ صادر کرسکے-سائفر کیس فارن فنڈنگ کیس پہلے ہی اعلی عدالتوں کی جانب سے کالعدم قرار دیے جا چکے ہیں-
 9 مئی کے واقعات کے سلسلے میں تحریک انصاف کی ایک پٹیشن پہلے ہی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ ان واقعات کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن بنایا جائے جو تمام واقعات کی تحقیقات کرنے کے بعد اپنی رپورٹ جاری کرے اور ذمہ داران کا تعین بھی کرے- پاکستان کے نامور بیرسٹر اور سیاست دان اعتزاز احسن کے مطابق وفاقی حکومت تحریک انصاف پر پابندی کا ریفرنس دائر کرنے کے بعد خود ہی اپنے جال میں پھنس جائے گی-عدالت میں سوالات اٹھائے جائیں گے کہ کیا موجودہ وفاقی حکومت آئین کے مطابق ایک جائز اور قانونی حکومت ہے یا جعلی مینڈیٹ کے ذریعے اقتدار میں آئی ہے-جب تک عدالت میں فارم 45 اور فارم 47 کا فیصلہ نہ ہو جائے وفاقی حکومت پاکستان کی ایک مقبول جماعت کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا آئینی اختیار اور جواز ہی نہیں رکھتی-حکومتی جماعت کو پابندی لگانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہیے۔ وہ فارم 47 کی پیداوار ہے اس کے پاس کوئی آئینی اور اخلاقی جواز نہیں ہے کہ وہ عوام کی آواز پر پابندی عائد کردے-نامور بیرسٹر حامد خان نے کہا ہے کہ حکومت خصوصی نشستوں کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرکے آئینی بریک ڈاؤن کی صورت حال پیدا کر رہی ہے-
حیران کن امر یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے-دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی اتفاق رائے اور مفاہمت انتہائی لازمی ہے- پاکستان کی معاشی حالت انتہائی تشویش ناک ہو چکی ہے- کئی دہائیوں سے پاکستان معاشی طور پر آئی سی یو میں ہے- اس کی معاشی صحت ابھی تک خطرے سے باہر نہیں ہے-ان پریشان کن حالات میں تمام سٹیک ہولڈرز کا فرض اولین یہ ہے کہ وہ پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا کرنے کے لیے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات اٹھائیں-
اگر تحریک انصاف پر پابندی عائد کی گئی تو اس جماعت سے وابستہ سیاسی کارکنوں کا غصہ انتہائی درجے تک پہنچ سکتا ہے-سیاسی کارکنوں پر جب سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی جائے گی تو اس بات کا شدید اندیشہ ہے کہ وہ سیاست اور جمہوریت کی بجائے ان قوتوں کے آلہ کار بن جائیں گے جو پاکستان میں ریاست کا تختہ الٹ کر شریعت نافذ کرنا چاہتی ہیں- 
سوال یہ ہے کہ جب عمران خان کا اقتدار ختم کیا گیا تو اس وقت کی پی ڈی ایم حکومت نے عمران خان کے خلاف ریفرنس کیوں نہ دائر کیا کہ انہوں نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی معاونت سے عدم اعتماد کی تحریک کو غیر آئینی طور پر روکا اور اسمبلی توڑ دی - آج جب کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے خصوصی نشستوں کے سلسلے میں آٹھ پانچ کے تناسب سے تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دیا ہے تو حکومتی جماعت نے مایوسی کے عالم میں تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے-سینیئر تجزیہ نگار یہ رائے دے رہے ہیں کہ موجودہ حکومت چونکہ بہت کمزور ہے اور وہ اتحادی جماعتوں کے سہاروں پر قائم ہے اس لیے وہ تحریک انصاف کے خلاف ریفرنس دائر کرنے اور اسے کامیاب بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے- حکومت کی اتحادی جماعتیں اس فیصلے کی تائید کر کے اپنی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی متحمل نہیں ہو سکتیں - پاکستان کی عدالتوں کے جج آئین اور قانون کی حکمرانی کے لیے کھڑے ہو چکے ہیں اب ان کو کسی صورت دباؤ میں نہیں لایا جا سکتا- 
قومی مفاد اور عوامی فلاح کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز ہوش کے ناخن لیں اور پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کی کوشش کریں جس کے لیے سیاسی اور معاشی استحکام لازم اور ضروری ہے-ریاستی اداروں کے درمیان ٹکراؤ آزادی اور سلامتی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے-
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن