دہشت گردی ،پاک فوج اور عوام

گزشتہ کچھ مہینوں سے سے پاکستان میں دہشت گرد ایک بار پھر فعال ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور خیبرپختونخوا میں ایک ہفتے کے دوران دہشت گردی کے مختلف واقعات میں 10 سیکیورٹی اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔15 جولائی کو 10 دہشت گردوں نے بنوں چھائونی پر حملہ کیا، تاہم سیکیورٹی فورسز نے بنوں کنٹونمنٹ پر دہشت گردوں کا حملہ ناکام بنادیا، سیکیورٹی فورسز کی بروقت اور مؤثر کارروائی سے قیمتی جانیں بچ گئیں۔ سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی کینٹ میں داخلے ہونے کی کوشش ناکام بنا دی، اس دوران دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی بنوں چھائونی کی دیوار سے ٹکرا دی، دہشت گردوں کے خودکش حملے میں پاک فوج کے 8 اہلکار شہید ہوئے جبکہ جوابی کارروائی میں دس دہشت گرد بھی ہلاک ہو گئے۔ترجمان پاک فوج کے مطابق دہشت گردی کی یہ گھنائونی کارروائی حافظ گل بہادر گروپ نے کی ہے، حافظ بہادر گروپ افغانستان سے کام کرتا تھا، یہ گروپ ماضی میں بھی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتا رہا ہے اور افغان حکومت کو اب سوچنا چاہئے یوں تو وہ ایک برادر اسلامی ملک ہونے کا دعوی کرتے ہیںلیکن کیا یہ اسلام ہمیں اجازت دیتا ہے کہ ایک برادار اسلامی ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے اپنی سرزمین دے دی جائے اور پھر اقرار بھی نہ کیا جائے۔اسی طرح ڈیرہ اسماعیل خان میںبھی دہشت گردوں نے پندرہ اور سولہ جولائی کی درمیانی شب ایک ہیلتھ سینٹر پر حملہ کیا اور جس میں پاک فوج کے دو جوان شہید ہوئے اور جوابی کارروائی میںتین دہشت گرد جہنم واصل ہو گئے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں دیکھا گیا ہے کہ جب سے ہمارے ہمسائیہ میں طالبان کی حکومت وجود میں آئی ہے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا بالخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردوں نے سیکیورٹی فورسز اور شہریوں پر متعدد حملے کیے جس سے بڑی تعداد میں شہادتیں ہو چکی ہیں۔پاک فوج کے مطابق صرف رواں سال سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے ایک ہزار 63 واقعات رونما ہوئے جس میں افواج پاکستان کے 111 جوان شہید ہوچکے ہیں۔ یہ شہادتیں ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردوںکا مقابلہ کرنے کیلئے چوکنا ہیں اور اپنی جانیں دے کر پاکستان کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیںکہ پاکستان پر کوئی آنچ نہ آئے چاہے ہمارے جوانوں کو اس کیلئے اپنی جان کیوں نہ دینی پڑے۔ ان واقعات کی ٹائمنگ بہت اہم ہے کیوں کہ یہ واقعات ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب حال ہی میں حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف عزم استحکام اپریشن کے نام سے ایک اپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اس اپریشن کی ہماری کچھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے مخالفت کی جا رہی ہے لیکن ہماری ان سیاسی جماعتوںکو شہید ہوتے ہوئے نوجوان دکھائی نہیں دے رہے لیکن اپنے ووٹ کیلئے وہ دہشت گردوں کیخلاف اپریشن کی مخالفت کر رہی ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ مذاکرات سے مسائل کو حل کیا جائے لیکن ایک جانب پاک فوج پر آئے روز حملے ہو رہے ہیں اور دوسری طرف پاک فوج کو مذاکرات کرنے کا کہا جا رہا ہے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ جب معاملات مذاکرات سے حل نہ ہو رہے ہوں تو فوجی اپریشن ہی واحد حل رہ جاتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اپریشن عزم استحکام کو عوام کا اعتماد حاصل نہیں ہو گا اور مولانا فضل الرحمن نے تو اس اپریشن کو عدم استحکام کا نام دے کریقینا دشمن کو خوش کیا ہے کیوںکہ فوج کا کام صرف لڑنا ہوتا ہے اور اپریشن کی کامیابی کیلئے حکمت عملی بنانا ہوتی ہے اور مقامی افراد کی اس اپریشن کیلئے کیسے حمایت حاصل کرنی ہے یہ کام سول حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے اور ہماری سول حکومت چاہے وہ وفاقی ہو یا صوبائی اس وقت آپس میں برسرپیکار ہیں وہ عوام میں اس اپریشن کی حمایت کیسے حاصل کر سکتی ہیں یہ سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ کیوںکہ یہ اپریشن خیبر پختونخوا کے علاقوں اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں ہونا ہے لیکن ہماری کے پی کے کی حکومت وفاق پر الزام تراشی کرتی ہے اور وفاق کے پی کے پر الزام لگاتا ہے کہ وہ ملک میں دہشت گردی کو بڑھانے کے ذمہ دار ہیں۔ ہمارے سیاست دان اس وقت بظاہر ناکام ہو چکے ہیں کیوں کہ یہ ایک دوسر ے کو برداشت کرنے کے دیکھنے کے روادار نہیں ہیں، ایک دوسرے پر پابندیاں لگا رہے ہیں، کوئی ایک بھی سیاسی جماعت کسی دوسری سیاسی جماعت کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ اگر یہ جمہوریت ہے تو ایسی جمہوریت سے پاکستان ویسے ہی بھلا ہے۔ کیوں کہ جمہوریت تو نام ہی برداشت کا ہے ایک دوسرے پر اعتماد کا ہے لیکن یہاں کیا ہو رہا ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کی جا رہی ہیں اور ان سیاست دانوں کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ ملک دہشت گردی کا شکار ہو رہا ہے اور پاک فوج نے جو ہزاروں جانیں قربان کر کے ملک میں امن قائم کیا تھا وہ ایک بار پھر تہہ و بالا ہونے جا رہا ہے اور اگر بر وقت اس دہشت گردی کے سیلاب کے آگے اپریشن عزام استحکام کے ذریعے بندنہ باندھا گیا تو ملک خدانخواستہ ایک بار پھر بد امنی کا شکار ہو جائے گا۔سیاست دان اگر ملک کیلئے ایک نہیں ہو سکتے تو پھر ایسی سیاست اور ایسی جمہوریت کا کوئی فائدہ نہیں ہے اس سے تو اچھا ہے کہ فوج جو اپنی جانیں قربان کر کے ملک کی سلامتی کو یقینی بنا رہے ہیں وہ ہی ملک کی بھاگ ڈور بھی سنبھال لے کیوں کہ سیاست دانوں کی حرکتوں کی وجہ سے لوگوں کاموجودہ نظام سے اعتبار اٹھتا جا رہا ہے ،جب سیات دان ایک دوسرے پر اعتماد اور اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں اور اپنے معاملات کیلئے بھی فوج ہی کی جانب نظریں کئے ہوئے ہیں تو پھر ان سے تو فوج بھلی ہے جو اپنی جانیں دے کر ملک کی سلامتی کو یقینی بنا رہے ہیں اور میرا ایمان ہے اگر فوج ان سیات دانوں کی جگہ ملک کی بھاگ ڈور سنبھال لیگی تو یقینا لوگ بھی سکھ کا سانس لیں گے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن