ہفتہ ‘ 13 محرم الحرام 1446ھ ‘ 20 جولائی 2024ء

سندھ ہائیکورٹ نے ارکان پارلیمان کو  اپنے حلقے کیسرکاری اسپتالوں سے علاج کرانے کا حکم دیدیا ہے۔
کیا ارکان پارلیمان ہائی کورٹ کے اس حکم پر عمل کریں گے؟ 
خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
اول تو دعا کرنی چاہیے کہ کوئی بیمار نہ ہو کہ اسے ہاسپٹل جانا پڑے۔ارکان پارلیمان تو بالکل بھی بیمار نہ پڑیں کیونکہ ان کے بیمار ہونے سے ایک تو قانون سازی متاثر ہوتی ہے دوسرا قومی خزانے کو بڑی ڈز لگتی ہے۔کیونکہ سرکاری خرچے پر ان کا علاج یو کے اور یو ایس اے کے سوا اور کہیں نہیں ہوتا۔ سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ روز ہدایات جاری کیں کہ حکومت ایسی پالیسی بنائے جس سے وارڈ سے لے کر پارلیمنٹیرین تک منتخب ارکان بمع اہل و عیال اپنے حلقہ کے سرکاری ہسپتال سے علاج کرائیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار اسی طرح ٹھیک ہو گی۔عدالت کی طرف سے تاہم ایک رعایت ضرور دی گئی ہے کہ منتخب اراکین صرف کینسر یا کسی خطرناک بیماری کے علاج کے لیے اپنے علاقہ سے باہر علاج کرالیں۔عدالت نے گو اپنے حکم میں اسے مینڈیٹری یعنی لازم قرار نہیں دیاکہ ارکان پارلیمان اپنا علاج اپنے حلقے کے ہاسپٹل ہی سے کروائیں۔بادی النظر میں سرکاری خرچے پر اگر علاج کروانا ہے تو اپنے حلقے کے ہسپتال سے کروائیں اگر کوئی اپنی جیب سے اخراجات ادا کرنا چاہتا ہے تو وہ علاج کہیں سے بھی کراسکتا ہے۔لگے ہاتھوں عدلیہ یہ حکم پاس کر دے یا پارلیمنٹیرین مل کر قانون بنا لیں کہ اپنے حلقے کے ہاسپٹل میں علاج کے ساتھ ساتھ اپنے حلقے ہی کے سرکاری اداروں میں ان کے بچے بھی تعلیم حاصل کریں گے۔ اس کے بعد تعلیم کا معیار قلانچیں بھرتا  آسمان کو چھوتا ہوا نظر آئے گا۔لوگ پرائیویٹ سکولوں کالجوں سے اپنے بچوں کو اٹھا کر سرکاری اداروں میں برضا و رغبت بھیجنے پر آمادہ ہوں گے۔ہمارے ہاں چونکہ ہر سطح پر تیزیاں پائی جاتی ہیں اور ہر بندہ "سائنس دان" بھی ہے، یہ نہ ہو کہ نزلہ زکام کو بھی مہلک مرض کا لکھوا کر علاج کے لیے نیو یارک لندن چلے جانے کا راستہ نکال لیا جائے۔
٭…٭…٭
اب تو کرونا بھی ہو گیا ،جو بائیڈن صدارتی الیکشن سے دستبردار ہو جائیں۔ دو تہائی ڈیمو کریٹس کا مطالبہ۔
ٹرمپ اپنی لاابالی طبیعت کے باوجود  کئی امریکیوں کی چوائس تھے۔ان کے کان پر گولی لگی تو خوف زدہ ہونے کی بجائے مکا لہرا کر جرات کا اظہار کرنے پر مزید کئی کی بھی چوائس ہوگئے۔ اب تو گویا وہ چوائس در چوائس ہیں۔ کبھی کچھ ریپبلکنز بھی ٹرمپ کو صدارتی الیکشن کی دوڑ سے دور رہنے کا مشورہ دیتے تھے مگر اب بازو کھینچ کر آگے لا رہے ہیں۔ اْدھر جوبائیڈن کی مارکیٹ ٹھنڈی پڑ گئی۔ ان کے ساتھی ’’بہہ جا بہہ جا‘‘ کہہ رہے ہیں۔ وہ چلتے چلتے لڑکھڑا جاتے ہیں۔ بیٹھے بیٹھے سو جاتے ہیں۔ چلتے چلتے رک جاتے ہیں۔ بولتے بولتے چپ کر جاتے ہیں۔شاید نیند میں پڑوسیوں کی دیوار بھی پھلانگ جاتے ہیں۔ ڈیموکریٹس کی اکثریت ان کے بڑھاپے کی بنا پر ان کو صدارتی ریس سے باہر کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ اب امریکی صدر کرونا کا بھی شکار ہو گئے۔ دنیا سے کرونا مک گیا مکر جو بائیڈن اس کی زد میں آ گئے۔اللہ خیر کرے یہ وبا یہیں پہ دب جائے۔اکثر ڈیموکریٹس کہہ رہے ہیں کہ بس بھئی بس اب دستبرداری اختیار کریں، کسی اور کو موقع دیں۔ کل تک بائیڈن کا اصرار تھا ابھی تو میں جوان ہوں۔ ان کی عمر 81 سال ہے۔ مہاتیر محمد جو آج 99سال کے ہیں ایک کم سنچری، وہ2018ء میں 93سال کی عمر میں ملائیشیا کے وزیر اعظم بنے۔ قبل ازیں1981ء سے 2003ء تک وزیر اعظم رہے تھے۔غلام اسحق خان 90سال کی عمر میں پاکستان کے صحت مند صدر تھے۔ شیخ رشید ان دنوں میاں نواز شریف کی ناک کا بال ہوا کرتے تھے۔ آج کی نسبت آتش جواں تھا۔ اب تو چلّے نے آتش کو سواہ یعنی راکھ کر دیا ہے۔ جب آتش جوان تھا منہ پھٹ بھی تھے۔انہوں نے صدر اسحق خان کے تیور دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ یہ بابا تو بادام نہیں توڑ سکتا اسمبلیاں کیسے توڑے گا۔ بوڑھے صدر نے اسمبلیاں توڑ دی تھیں۔ جو جسٹس نسیم حسن شاہ نے جوڑ دیں مگر میاں صاحب سے سنبھل نہ سکیں اور خود توڑ کر گھر چلے گئے الیکشن ہوئے تو بڑی حریف بینظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں۔
٭…٭…٭
بنگلہ دیشی وزیر اعظم کے چپڑاسی کے اکاونٹس سے4سو کروڑ روپے برآمد
ان چپڑاسی صاحب کا نام جہانگیر عالم ہے۔ چپڑاسی بننے سے پہلے تھا یا نہیں مگر چپڑاسی بننے کے بعد اس قبیل کا میرعالم بن گیا جو ہر آنے جانے والے کے سامنے ہاتھ اور دامن پھیلا دیتے ہیں۔ وزیر اعظم کا چپڑاسی ہو اور اس کا پھیلایا دامن خالی رہ جائے ممکن نہیں۔ بلکہ کئی تو بن مانگے بھر دیتے ہیں۔جہانگیر عالم کے ارب پتی ہونے کا راز خود وزیر اعظم نے کھولا ہے۔ حسینہ واجد کہتی ہیں میرا چپڑاسی اب 4 ارب روپے کا مالک بن بیٹھا ہے۔ اس پر ایجنسیاں حرکت میں آئیں اور سب سے پہلے اس کے اکاونٹ بے حرکت یعنی منجمد کر دیئے گئے۔ جہانگیر عالم جو اب امریکہ جا چکے ہیں اپنی دولت کو سفید دھن قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں میرے پاس جو کچھ ہے میں نے ٹیکس فائل میں اس کا ذکر کیاہے۔ ہواؤں کا بدلا ہوا رخ دیکھاتوبنگلہ دیش سے بھاگ کر دوسری بیوی کے پاس امریکہ جا پہنچے۔جہاں پکڑے جانے کے خطرے پر تیسری بیوی کے پاس کسی اور ملک چلے جائیں گے۔ اب پتہ نہیں کہ وہ امریکہ عام پرواز سے گئے یا چارٹرڈ جہاز سے گئے۔ عالمگیر کے پاس کروڑوں روپے کی گاڑی اور تین منزلہ محل نما گھر ہے۔ لائف سٹائل شاہانہ ہے۔ ایک ڈی ایس پی کے باورچی نے 4کنال پر تین کروڑ کا گھر بنا کر افسروں، اہلکاروں، صحافیوں اور زمینداروں کو دعوت پر بلالیا۔ اس سے پوچھا گیا کہ اتنا پیسہ کہاں سے آیا تو جواب تھا جائیداد وراثت میں ملی ہے۔ مہمان گئے تو خانسامی نے پوچھا کونسی جائیداد وراثت میں ملی؟ تیرا دادا فوت ہوا تو چاچے تیرے ابے سے لحافوں کی تقسیم پر لڑ پڑے تھے۔ باورچی نے بیوی کی بات بڑے انہماک سے سنی اور ترت جواب دیا۔ میں اپنی اس وراثت  کی بات کر رہا ہوں  یہ کوٹھی جو میری طرف سے تیرے پتر کو ملی ہے اور اس پر قسم کھا سکتا ہوں۔ چپڑاسی کس کا؟ اس پربڑا انحصار ہوتا ہے۔  ایس پی ڈی ایس پی آئی جی سیکرٹری کے چپڑاسی تک روزانہ سائلین کے کام نکلوا کر دس پندرہ ہزار گھر لے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم کا ہو تو دس پندرہ لاکھ، اس حساب سے400کروڑ اکاؤنٹ سے برآمدہونا تعجب خیز نہیں ہے۔
٭…٭…٭
کسی کا باپ بھی پی ٹی آئی پر پابندی نہیں لگا سکتا: علی امین گنڈا پور۔
جس طرح گنڈا پورکھڑک، دڑک سے بات کرتے ہیں ان کو گنڈاسا پور کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ فیصل واوڈا گو مولا جٹ کے سٹائل میں بات نہیں کرتے مگر وہ بھی ایسے بیانات دیتے ہیں۔ کسی کا باپ بھی حکومت کوگرا نہیں سکتا۔کسی کا باپ بھی پی ٹی آئی کو بلے کا نشان نہیں دلا سکتا۔ کسی کا باپ بھی فاروڈ بلاک بنانے سے نہیں روک سکتا۔ دراصل وہ اپنی پیشگوئی میں زور پیدا کرنے کے لیے کسی کے باپ کو بیچ میں لے آتے ہیں۔ایک صحافی کے جواب پر تو انہوں نے اسے کہہ دیا آپ  باپ نہ بنیں۔ پی ٹی آئی پر پابندی کے لیے کسی کے باپ کو زحمت دینے کی ضرورت نہیں، ضابطے کی کارروائی ہوگی مطلوبہ فورمز پر معاملہ جائے گا فریقین سے پوچھا جائے گا  دلائل کے بعدجس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا۔ دو چار روز قبل بڑے زور دار طریقے سے پابندی کی بحث شروع ہوئی۔ وزیر اطلاعات تارڑ نے پریس کانفرنس کی۔ اس کے بعد وہ خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ ازاں بعد ریگولر اور سوشل میڈیا پر پٹاخے پھٹتے اور کڑاکے نکلتے نظر آئے۔ حکومتی جماعتیں ایک دوسرے کو آنکھیں دکھا رہی تھیں کہ ہمیں نہیں پوچھا مشاورت نہیں کی۔اپوزیشن مسل دکھا رہی تھی لگا کے دیکھو پابندی۔ محاذ گرم تھا۔رن کانپ رہا تھا۔ شعلہ بیانی جاری تھی کہ ڈپٹی وزیر اعظم اسحق ڈار نے کہا ابھی پابندی کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ اس کے بعد لپکتے بھڑکتے شعلے سرد پڑنے لگے۔ ان دو چار دنوں میں توجہ حاصل کرنے والاکوئی سٹنٹ شاید مل نہ سکا تو یہ شوشا چھوڑ دیا گیا۔مگر بھلیکھے میں  نہ رہنا پابندی کا معاملہ سنجیدہ بھی ہوسکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن