وزیراعظم شہبازشریف نے مختلف عدالتوں اور ٹربیونلز میں زیرالتواء ٹیکس مقدمات جلد نمٹانے کیلئے اپیلٹ ٹربیونلز کی تعداد 100 تک بڑھانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اکتوبر 2024ء تک ہر ٹیکس دہندہ کیلئے سنگل سیلز ٹیکس سسٹم لاگو کیا جائے۔ گزشتہ روز ایف بی آر ڈیجیٹلائزیشن کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ ایف بی آر ڈیجیٹلائزیشن کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور گزشتہ چار ماہ میں ٹیکس ری فنڈ میں آٹھ سو ارب روپے کا فراڈ پکڑا گیا ہے۔ انہوں نے ایف بی آر حکام کو ہدایت کی کہ 49 لاکھ امیروں سے ٹیکس وصول کیا جائے اور غریبوں پر اضافی بوجھ نہ ڈالا جائے۔ دولت مندوں کو ترجیحاً ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ انہوں نے ٹیکس ری فنڈ نظام مزید بہتر بنانے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ ادائیگی میں تاخیر قابل قبول نہیں۔ وزیراعظم کے بقول عدالتوں اور ٹربیونلز میں 32 کھرب روپے کی وصولی کے 83 ہزار 579 مقدمات زیرالتواء ہیں۔ ایف بی آر میں اصلاحات سے محصولات میں اضافہ ممکن ہے تاہم ایف بی آر کے کئی منصوبوں میں غیرضرری تاخیر ہو رہی ہے جو افسوسناک ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے ٹیکس اپیلٹ ٹربیونلز کی کارکردگی جانچنے کیلئے ڈیش بورڈ تیار کرنے کی بھی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے گزشتہ ہفتے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں چیئرمین ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس وصولی کے حوالے سے پیش کئے گئے بعض عذرات کا سخت نوٹس لیا تھا اور باور کرایا تھا کہ وہ استعفیٰ دے دیں گے مگر قومی مفاد سے متعلق مفادات پر کوئی عذر قبول نہیں کرینگے۔ انہوں نے اصلاح احوال کیلئے کڑوے فیصلوں پر کسی قسم کی مفاہمت نہ کرنے کا بھی واضح عندیہ دیا تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ بااختیار حکمران اشرافیہ طبقات نے قومی خزانے اور وسائل کی لوٹ مار میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جو ٹیکس چھپانے‘ چوری کرنے اور ٹیکس ادا نہ کرنے کیلئے بھی پوری دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے مناصب اور اختیارات بروئے کار لاتے ہیں اور عوام کیلئے ہر قسم کے ناروا ٹیکسوں کے راستے نکالنے کے فن میں بھی یکتا ہیں۔ عوام پر براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر انہیں ٹیکس ادا نہ کرنے کا بھی مطعون ٹھہرایا جاتا ہے جبکہ وصول شدہ ٹیکسز کے قومی خزانے میں جانے سے پہلے ہی نقب لگا کر ان رقوم میں غبن کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی۔ یہی وہ طبقات ہیں جو اپنے مناصب کی بنیاد پر لاکھوں روپے کی تنخواہوں کے علاوہ مختلف الائونسز اور بجلی‘ پٹرول‘ گیس کی سہولت بھی مفت اور وافر مقدار میں وصول کرتے ہیں۔ پھر بھی انکے حرص اور طمع میں کوئی کمی نہیں آتی اور وہ اپنے ذمہ واجب الادا ٹیکسوں کی ادائیگی سے بھی راہ فرار اختیار کئے رکھتے ہیں اور جن کا ایف بی آر کے ٹیکس کولیکشن سسٹم سے تعلق ہے وہ وصول شدہ ٹیکسوں میں گھپلے سے بھی گریز نہیں کرتے جس کی نشان دہی خود وزیراعظم کی جانب سے کی جا چکی ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ اگر وصول کی گئی ٹیکسوں کی ساری رقوم براہ راست قومی خزانے میں جائیں اور سارے مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات کو صحیح معنوں میں ٹیکس نیٹ میں لا کر ان سے ٹیکسوں کی وصولی یقینی بنائی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ آئی ایم ایف کا دست نگر ہوئے بغیر ہماری معیشت اپنے پائوں پر کھڑی نہ ہو سکے اور عوام خوشحالی سے ہمکنار نہ ہوں۔ یقیناً ہمارے سسٹم میں ہی خرابیاں موجود ہیں جبکہ سسٹم کی اصلاح میں بھی یہی مراعات یافتہ حکمران اشرافیہ طبقات ہی آڑے آتے ہیں جن کے پاس اصلاحات کیلئے کوئی قدم نہ اٹھانے کے عذر اور جواز پہلے ہی گھڑے گھڑائے موجود ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں اصل زد تو حکومتی گورننس پر پڑتی ہے جسے زمینی خدائوں کی موجودگی میں ٹریک پر رکھنا حکومت وقت کیلئے بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ بالخصوص جب ملک میں دہشت گردی کی پیدا کردہ بدامنی‘ باہم دست و گریباں سیاست دانوں کے پیدہ کردہ سیاسی عدم استحکام والے حالات اور ملک کی معیشت کو لاحق ڈیفالٹ والے خطرات موجود ہوں اور عوام مہنگائی کے ناروا بوجھ تلے دبے ہوں تو حکومتی گورننس کیلئے عوام کو ریلیف دیکر مطمئن کرنا اور سیاسی و اقتصادی استحکام یقینی بنانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
ہمارے آج کے اتحادی حکمرانوں کو یقیناً یہی بڑے چیلنجز درپیش ہیں جبکہ مہنگائی‘ بجلی‘ گیس‘ پٹرول‘ ادویات کے نرخوں میں آئے روز کے شتربے مہار اضافے‘ بجٹ میں لاگو ہونے والے نئے ناروا ٹیکسوں کے علاوہ ملک کے امن و امان کی صورتحال سے بھی عوام عاجز آئے ہوئے ہیں اور تہیہ طوفان کئے بیٹھے ہیں۔ اس کے علاوہ اپوزیشن بھی ملکی اور قومی مفادات کو تج کر حکومت کیخلاف حشرنشر والا طوفان اٹھانے کا عندیہ دے رہی ہے تو غیریقینی اور عدم استحکام کی اس فضا میں ملک کے اندرونی و بیرونی دشمن عناطر کیلئے بھی پاکستان کے بارے میں رائے عامہ کو متاثر کرنے والے عالمی اور علاقائی اداروں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا آسان راستہ نکل آتا ہے جیسا کہ دو روز قبل عالمی ریٹنگ ایجنسی ’’فچ‘‘ کی رپورٹ کے ذریعے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کو بڑھاوا دینے کا ’’کارنامہ‘‘ سرانجام دیا گیا ہے۔
اس فضا میں جبکہ بجلی کے جاری بحران اور اسکے نرخوں میں انتہاء درجے کے اضافے کا ذمہ دار نجی تھرمل پاور کمپنیوں کے ساتھ طے پانے والے سابقہ ادوار کے معاہدوں کو ٹھہرایا جا رہا ہے جو ماہرین اقتصادیات کے پیش کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر درست بھی ہے اور نجی پاور کمپنیوں سے یہ معاہدے کرنے والے سابقہ حکمران آج بھی اس پر کسی قسم کی شرمندگی محسوس نہیں کرتے، توانائی کے سابق وزیر گوہر اعجاز نے یہ انکشاف کرکے قومی خزانے کی لوٹ مار کی صورتحال مزید گھمبیر بنا دی ہے کہ صرف آئی پی پیز ہی نہیں‘ سرکاری بجلی گھر بھی کھربوں روپے کے کپیسٹی چارجز وصول کر رہے ہیں۔ گویا بجلی کی پیداوار نجی پاور کمپنیوں کی طرح سرکاری بجلی گھروں کی بھی ایک دھیلے کی بھی نہیں مگر قومی خزانے سے انہیں کھربوں روپے کی ادائیگی ہو رہی ہے اور اسکی سزا بھی بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ اور آئے روز بڑھنے والے بلوں کی صورت میں راندہ درگاہ عوام ہی کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔ یہی وہ دھن دھونس والا کلچر ہے جو ملک کی معیشت و معاشرت کو تباہی کے دہانے تک پہنچا رہا ہے جس میں اصلاح احوال کی کوشش وزیراعظم شہبازشریف کیلئے یقیناً بہت کٹھن مرحلہ ہے۔ وہ اس معاملہ میں کسی دبائو میں آئے بغیر کڑوے فیصلے کرکے انہیں عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو گئے تو یقیناً اس سے ملک میں سیاسی استحکام اور عوام کی خوشحالی کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہو جائیگا۔ انہیں اس عزم سے ہٹانے کیلئے ہی ’’فچ‘‘ کے ذریعے موجودہ حکومت کے اٹھارہ ماہ بعد ختم ہونے اور ٹیکنوکریٹس کے اقتدار میں آنے کے ’’فیلر‘‘ چھوڑے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے ٹیکس سسٹم میں اصلاح احوال کا عزم باندھا ہے تو وہ ثابت قدمی کے ساتھ اس پر قائم رہیں ورنہ سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام ہمارا مقدر ہی بنا رہے گا۔
وزیراعظم کی ٹیکس ری فنڈ میں 800 ارب روپے کے گھپلے کی نشاندہی
Jul 20, 2024