10 محرم۔۔۔۔۔ شہادت ِ حضر ت ا ما م حسینؓ

مسند اقتدار پر بیٹھتے ہی یزید نے حضرت امام حسین ؓ اور عبد اللہ بن زبیر کو اپنا حریف مقابل خیال کرتے ہوئے اُن سے بیعت لینا اپنا ائولین مقصد سمجھااور اس سلسلے میں حاکم مدینہ ولید بن عقبہ کو احکامات جاری کئے جس نے مروان کے مشورے سے دونوں حضرات سے بیعت کا مطالبہ کیا۔حضرت حسین ؓ نے فرمایاـ"میرے نزدیک یہ مناسب نہیں ہے کہ میرے جیسا شخص خفیہ طور پر بیعت کرے اور کچھ موزوں اور مناسب بھی نہ ہو گابلکہ جب میں یہاں سے اُٹھ کر لوگوں میں جائوں اور تم اُن سب کو بیعت کیلئے بلائو گے اور میں بھی اُن لوگوں میں ہونگاتو سب سے پہلے میں ہی جواب دینے والا ہوں گا۔ ـ"ولید بن عقبہ معقول جواب کے بعد مطمئن ہو گیا مگر مروان نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ تم نے بیعت کرنے کی بجائے ایک رات کی مہلت مانگی اور مکہ معظمہ پہنچ کر حرم شریف میںپناہ گزیں ہو گئے ۔ولید نے اُن کا پیچھا کرنے کیلئے چند لوگوں کو بھیجا مگر وہ ناکام لوٹے اور دوسرے دن حضرت امام حسینؓ اپنے اہل و عیال کو لے کر مکہ معظمہ روانہ ہو گئے ۔یزید کو جب ولید کی ناکامی کا علم ہوا تو ولید بن عقبہ کو مدینہ منورہ کی گورنری سے معزول کرکے عمر بن سعید کو اُسکی جگہ نیا گور نر مقرر کیا جس نے عہدہ سنبھالتے ہی عبد اللہ بن زبیر کے بھائی عمرو بن زبیر کو پولیس کا اعلیٰ افسر مقرر کر دیا جس نے آتے ہی عبداللہ بن زبیر کے حامیوں کو گرفتار کر لیا۔مروان کے منع کرنے کے باوجود عمر بن سعید نے ایک لشکر جسکی سربراہی انیس بن عمر اور عمرو بن زبیر کے ہاتھ تھی بیعت لینے کیلئے مکہ روانہ کیا۔بھائی کے کہنے پر بھی جب عبد اللہ بن زبیر نے بیعت سے انکار کیا تو عمرو بن زبیر کی طرف سے انیس بن عمر اور عبد اللہ بن زبیر کی طرف سے عبد اللہ بن صفوان کے درمیان مقابلہ ہوا جس میں انیس بن عمر مارا گیا۔بعد میں عبداللہ بن صفوان کا مقابلہ عمر بن زبیر سے ہوا ۔ عمر بن زبیر شکست کھا کر گرفتار ہو گیا ۔اس طرح اس لشکر کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
اُس وقت کوفہ میں ایسے لوگوں کی اکثریت تھی جوحضرت امام حسین ؓ کو خلافت کا جائز حقدار سمجھتے تھے۔چنانچہ اُنہوں نے سلیمان بن حرد کے گھر میٹنگ بلا کر حضرت حسین ؓ کو کوفہ بلا کر اُن کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا فیصلہ کیا  اور آپ ؓ کو خط لکھ کر بتایا کہ اُنہوں نے نعمان بن بشیر گور نر کوفہ کے ہاتھ پر نہ یزید کی بیعت کی ہے اور نہ ہی عید اور جمعہ کی نمازوں میں اُن کے ساتھ شامل ہوئے ہیں۔خط و کتابت کا سلسلہ جاری ہو گیا ۔حضرت حسین ؓ نے حالات کا جائزہ لینے کیلئے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا اور بذریعہ خط اُن کو آگاہ کیا کہ اگر مسلم بن عقیل نے حالات ٹھیک دیکھے تو اُن کی تصدیق پر بیعت لینے کوفہ آجائوں گا۔مسلم بن عقیل جب کوفہ پہنچے تو لوگوں نے پُر جوش استقبال کیا اورآپ مختار کے گھر قیام پذیر ہوئے ۔حکومت کے حامیوں نے اس اجتماع کی خبر گور نر کوفہ نعمان کو دی ۔مگر اُس نے لوگوں کو پُر امن رہنے کی تلقین کر کے خاموش کرایا۔جب حکومت کے حامیوں کواس کا رویہ پسند نہ آیا تواُنہوں نے یزید کو اُس کی براہ راست شکایت کر دی۔جس کے نتیجہ میں نعمان کو معزول کر کے عبد اللہ بن زیاد کو کوفہ کا نیا گورنر مقرر کیا گیا جس نے عہدہ سنبھالتے ہی لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ  ـ"خلیفہ وقت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو ظاہر کردوورنہ میری تلوار اُس کا مقابلہ کرے گی۔"اس اعلان کے بعد مسلم بن عقیل مختار کے گھر کی بجائے ہانی بن عروہ کے گھر قیام پذیر ہو گئے۔اس دوران اٹھارہ ہزار اہل کوفہ مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر حضرت حسین ؓ کی بیعت کر چکے تھے۔چنانچہ اُن کی وفاداریاں دیکھ کر مسلم بن عقیل نے حضرت حسین ؓ کو خط لکھاکہ آپ ؓ جلد کوفہ تشریف لے آئیں۔ادھر جب عبد اللہ بن زیاد کو مخبر نے اطلاع دی کہ مسلم بن عقیل ہانی ابن عروہ کے ہاں مقیم ہیں تو ہانی کو گرفتار کر لیا گیا۔مسلم بن عقیل کو جب اپنے محسن کی گرفتاری کا علم ہوا تو اُس وقت اُن کے پاس چار ہزار اہل کوفہ کی تعداد موجود تھی اور اٹھارہ ہزار پہلے ہی بیعت کر چکے تھے۔چنانچہ آپ چار ہزار کی معیت میں نکلے اور باقی لوگ بھی ساتھ شامل ہو گئے اور ابن زیاد کے محل کا محاصرہ کر لیا۔سرکاری اعلان ہوا کہ جو لوگ مسلم بن عقیل کا ساتھ چھوڑ دیں گے وہ حکومت کی امان میں ہوں گے ۔جو نہیں چھوڑیں گے وہ زیر عتاب ہوں گے اور یزید کی فوجیں پہنچنے والی ہیں۔کثیر بن شہاب کے اعلان کے بعد لوگ مسلم بن عقیل کو چھوڑ کر گھروں کو چلے گئے صرف تین حامی رہ گئے  اور بعد میں وہ بھی چلے گئے۔مسلم بن عقیل کو اہل کوفہ کی غداری اور منافقت کا احساس ہوا  چنانچہ آپ طوعہ نامی عورت کے ہاں پناہ گزیں ہو ئے جس کے بیٹے نے مخبری کر کے اُن کو پکڑوا دیا۔جب مسلم بن عقیل کو ابن زیاد کے پاس لے گئے تو اُنہوں نے عمر بن سعد کو وصیت کی ۔
1)میرے بعد میرا سات سو درہم کا قرضہ ادا کر دینا۔
2)میری لاش کو دفن کر دینا۔
3)حضرت حسین ؓ کو پیغام بھیجنا کہ وہ اہل کوفہ پر ہر گز بھروسہ نہ کریں اور کسی صورت میں بھی کوفہ نہ آئیں۔اگر روانہ ہو چکے ہیں تب بھی راستے سے واپس لوٹ جائیں۔ابن زیاد کے حکم سے مسلم بن عقیل اور ہانی کو قتل کر دیا گیا اور اسکی اطلاع بذریعہ خط یزید کو دی گئی۔
حضرت امام حسین ؓ کو جب مسلم بن عقیل کا پہلا خط ملا جسمیں تحریر تھا کہ اہل کوفہ کی کثیر تعداد ہمارے ساتھ ہیں اور اُنہوں نے بیعت کر لی ہے تو آپ ؓ نے کوفہ جانے کی تیاری شروع کر دی۔عبد اللہ بن عباس نے کوفہ جانے کا ارادہ ترک کرنیکی درخواست کی لیکن آپ ؓ نے اپنا ارادہ نہ بدلا۔اس کے بعد عبد اللہ بن زبیر اور عبد اللہ بن عمر نے بھی کوفہ جانے سے روکا۔دوسرے دن پھر عبد اللہ بن عباس نے اہل عراق کی بے وفائی ،عہد شکنی کی طرف توجہ دلا کر روکنے کی کوشش کی اور کہا کہ اہل عراق اگر اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو پہلے اپنے گورنر کو نکال کر باہر کر دیں اور پھر آپ ؓ وہاں جائیں۔لیکن حضرت امام حسین  ؓ کوفہ جانے کا مصمم ارادہ کر چکے تھے اسلئے بمعہ اہل و عیال مکہ معظمہ سے کوفہ روانہ ہو گئے۔راستہ میں فرزوق نامی شاعر نے عرض کیا کہ اہل کوفہ کے دل آپ ؓ کے ساتھ ہیں اور تلواریں بنو اُمیہ کے ساتھ ہیں۔عبد اللہ بن جعفر کا خط موصول ہوا جسمیں لکھا تھا واپس آجائیں خدا نخواستہ آپ ؓ شہید ہو گئے تو زمین کی روشنی جاتی رہے گی لیکن آپ ؓ پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا اور عبداللہ بن جعفر کے دونوں بیٹوں کو بھی ساتھ لے کر آگے روانہ ہو گئے۔اور قیس بن سہر کو ایک خط اہل کوفہ کے نام لکھ کر روانہ کیا ۔جس میں حضرت امام حسین ؓ کی آمد کا ذکر تھا۔حصین بن نمیر نے قیس بن سہر کو گرفتار کر کے ابن زیاد کے پاس بجھوا دیا جس نے اُنہیں شہید کر دیا۔
جب حضرت امام حسین ؓ  ثعلبیہ پہنچے تو اُن کو مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ملی ۔چند لوگوں نے یہ خبر سُن کر واپسی کا مشورہ دیا مگر مسلم بن عقیل کے عزیزوں نے قسم کھائی کہ بھائی کے خون کا بدلہ لئے بغیر ہر گز واپس نہ جائیں گے۔چنانچہ حضرت حسین ؓ اپنے جانثار ساتھیوں سمیت آگے بڑھتے گئے۔اپنے رضاعی بھائی قیس کی شہادت کی خبر سُن کر آپ ؓ نے فرمایا کہ جو لوگ واپس جانا چاہیں جا سکتے ہیں چنانچہ مکہ سے ساتھ روانہ ہونے والوں کے علاوہ باقی تمام لوگ واپس ہو گئے ۔جب آپ ؓ مقام ذو خشم پہنچے تو حُر کا لشکر موجود تھا جو مقابلہ کیلئے آیا ہوا تھا۔
آپ ؓ نے اسی مقام پر قیام فرماتے ہوئے کہا کہ میں تم لوگوں کی دعوت پر آیا ہوں خود سے نہیں آیا۔ عصر کی نماز کے بعد پھر فرمایا اللہ سے ڈرو اور حق کو پہچانو۔ حسر بن یزید نے کہا کہ ہم کو ان خطوط اور قاصدوں کا علم نہیں ہے جن کا آپ رضی اللہ عنہ ذکر کر رہے ہیں آپ ؓ  نے تھیلے کھول کر خطوط کو پھیلا دیا۔  حُر نے کہا کہ ہم ان خطوط کے لکھنے والے نہیں ہیں ہم کو حکم ملا ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عبداللہ بن زیاد کے پاس لے چلیں۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے یہ سن کر اپنے ساتھیوں کو واپسی کا حکم دیا کیونکہ آپؓ کسی حال میں بھی ابن زیاد کے پاس جانے کے لیے تیار نہ تھے۔ اور حر بن یزید آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی واپسی کا راستہ بھی روکے ہوئے تھا۔ ابن زیادکاخط ملتے ہی حر بن یزید آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو کربلا کی جانب لے چلا۔ 2 محرم61ہجری کو حضرت امام حسین رضی تعالیٰ عنہ کربلا پہنچے۔ عمر بن سعد کو حکم ملا کہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یزید کی بیعت لو چاہے جنگ کرنی پڑے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور عمر بن سعد نے آپس میں ملاقات کر کے چند شرائط پر مصالحت کرلی۔ عمر بن سعد نے ابن زیاد کو خط لکھا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے یہ شرائط پیش کی ہیں۔
  1: جہاں سے آئے ہیں وہیں ان کو واپس کر دیا جائے
 2:  جس سرحد کی طرف چاہیں ہم ان کو بھیج دیں
 3: ہم ان کو یزید سے ملنے دیں تاکہ وہ خود بات چیت کر لیں
 بظاہر ابن زیاد نے یہ شرائط تسلیم کر لیں مگر شمر ذی الجوشن نے بزور شمشیر بیعت کرنے کا مشورہ دیا اور دو راستوں میں سے ایک کو پسند کرنے کا حکم دیا۔ یعنی یزید کی بیعت یا موت۔ عمر بن سعد یا ان کے ڈر سے حکم کی تعمیل پر راضی ہو گیا حاکم کوفہ کے حکم کی تعمیل میں عمر بن سعد 9 محرم کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ ہوا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے عبادت کے لئے ایک رات کی مہلت مانگی آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلے اپنے ساتھیوں کو خطبہ دیا اور پھر مخالف لشکر میں پہنچ کر خطبہ دیا۔اے لوگو !  تم میری بات سنو۔ عجلت نہ کرو۔ تاکہ جہاں تک مجھ پر واجب ہے میں تم کو سمجھا نہ لوں اور میں اپنے آنے کا سبب تم سے بیان نہ کر لوں۔ پس اگر تم میرے عذرر کو قبول کر لو گے اور میری بات کی تصدیق کرو گے اور حق پسند ی کرو گے تو تمہاری اس میں سعادت مندی ہے اور تمہارا اس میں کوئی حرج نہ ہوگا۔ اور اگر تم میرا عذر قبول کرنا نہیں چاہتے تو تم لوگ جمع ہوں اور اپنے شرکا ء کو یکجا کرو تاکہ تم پر کوئی امر مشتبہ نہ رہے۔ اس کے بعد میرے سامنے آئو اور بے روو رعایت دیکھو بے شک میرا والی اللہ ہے جس نے کتاب اتاری ہے اور صالحین کا ولی ہے۔ اس کے بعد آپ ؓنے فرمایا تم لوگوں نے خود مجھے خطوط لکھ کر بلایا میں خود سے نہیں آیا تھا آپ ؓ نے  رئوسائے کوفہ کے نام لیے جنہوں نے خطوط لکھے تھے لیکن وہ منحرف ہو گئے۔ اس خطبے کا شامی فوج پر کوئی اثر نہ ہوا ۔اورحُر بن یزید کے مشورے کے باوجود جب عمر بن سعد نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی پر حملہ کرنا چاہا تو حُر بن یزید شامی فوج کو چھوڑ کر حسینی قافلہ میں شامل ہوگئے اور کہا کہ تم لوگ جو کچھ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے لیے کر رہے ہو غلط کر رہے ہو۔خو د دعوت د یکر ا ب لڑائی کرنا چاہتے ہو سب سے پہلا وار عمر بن سعد نے کیا ادھر حر بن یزید نے شامی لشکر پر حملہ کیا۔ شمر ذی الجوشن نے  شا می لشکر کی مد د کی ا و ر تیر اندازی نے حسینی لشکر کے گھوڑوں کو زخمی کر کے انکو پاپیادہ کر دیا۔ 72  جانثار شہید ہوگئے اور حُربن یزید بھی مقابلے میں مارے گئے۔ زرعہ بن تمیمی کے تلوار کے وار سے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ زمین پر گر گئے اور شہادت کا یہ المناک واقعہ 10 محرم 61 ہجری کو پیش آیا اور خاندان حسینی سے امام زین العابدین کے سوا کوئی فرد سانحہ کربلا سے نہ بچ سکا۔ 

بابو عمران قریشی سہام

ای پیپر دی نیشن