غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم 

Jul 20, 2024

حیدر عباس کلیال

آئیے آج سورہ کوثر کو کربلا کے تناظر میں پڑھیں’’بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ،پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔بے شک آپ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہے‘‘پہلی آیت مبارکہ میں آپؐکو حوض کوثر عطا ہونے کی خوشخبری ہے دوسری آیت میں دو ہدایت ہیں 1: نماز پڑھ رب کی 2:قربانی کر !!نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا احوال سب جانتے ہیں، تنہائی کی طویل رکوع وسجود والی نفلی نمازیں اس کے علاؤہ ہیں۔ اس پہ زیادہ بات کی گنجائش نہیں ۔اب بات آ گئی قربانی کی تو سیدنا ابراھیم کا بیٹا قربانی کے حوالے سے اجداد کی سنت سے ہٹ نہیں سکتا تھا، اس گھرانے میں قربانی کا خاص انداز تھا جو شاید کسی دوسرے گھرانے کو نصیب نہ ہوا۔سیدنا اِبراھیم کی اولاد پہ جان قربان کرنے کے بیشمار مواقع آئے لیکن یہ قربانی کسی خاص موقع تک ٹلتی رہی ۔ اور ٹلتی ایک خاص تاریخ یعنی چاند کی دسویں ہی رہی، شاید یہی وجہ رہی ہوگی کہ شیخ عبد القادر جیلانی ؒنے صدقہ کی یہی تاریخ مقرر کی۔ سیدنا اسماعیل، سیدنا یوسف، سیدنا یونس سیدنا موسیٰ سمیت درجنوں براہیمی پیغمبروں نے خود کو قربانی کیلئے پیش کیا لیکن میشت ایزدی نے موخر کیے رکھی، اس دوران خاص اہتمام رہا کہ سیدنا اسماعیل کی نسل سے کوئی پیغمبر مبعوث نہ ہوا جبکہ ان کے بھائیوں کی نسل سے ہزاروں پیغمبر مبعوث ہوئے۔ بات تھوڑی دور نکل گئی آتے ہیں اصل موضوع قربانی پہ۔ اس دوران اللہ پاک نے سیدنا اسماعیل کے گھر سے پیغمبر مبعوث فرمانے کا ارادہ کیا اور وہ بھی آخری، ہزاروں سال کی قربانی کی داستان انجام کی جانب بڑھتی دکھائی دینے لگی، اب پیغمبر بھی آخری، شریعت بھی آخری دور بھی آخری گھرانہ بھی سیدنا اسماعیل علیہ السلام کا ، قربانی کا طریق بھی واضح ،ہزاروں سال سے تربیت بھی جاری اور موقع بھی آخری۔ حکم بھی الکوثر میں آ چکا انعام کا اعلان بھی حوض کوثر کی صورت میں ہو چکا ۔لیکن یہاں ایک بہت بڑا فرق پیدا ہوا وہ یہ کہ سیدنا ابراھیم نے قربانی لینی تھی بیٹے نے دینی تھی تربیت بھی تھی اور بوقت قربانی موقع پر راہنمائی بھی تھی غلطی کا احتمال تھا ہی نہیں۔ جبکہ نبی اکرم کو مشکل مرحلہ درپیش تھا، وہ یہ آپ صلعم صرف تربیت کر سکے تھے موقع پر بدنی طور پر موجودگی نہ تھی۔ یہ واقعی بہت کڑا امتحان تھا، سیدنا حسین کو نانا کی تربیت کا حق بھی ادا کرنا تھا اور الکوثر میں طلب کی گئی قربانی کو سمجھ بوجھ کر  پیش کرنا تھا سید کی ذرا سی لغزش فخر انبیاء￿  کی تربیت پہ حرف لا سکتی تھی جو سیدنا حسین گواراہ کر ہی نہیں سکتے تھے۔پھر ہزاروں سال کا انتظار ختم ہوا، میدان منتخب ہو گیا، قربانی کا وقت آ پہنچا چشم فلک نے دیکھا کہ اپنی سب سے پیاری اشیاء￿  اپنی اولاد و اقارب کو قربان ہوتا دیکھ کر بھی پائے استقامت میں لغزش نہ آئی، اسماعیل کا بیٹا ڈٹ گیا ، لٹ گیا ،کٹ گیا لیکن ہزاروں سال کی تربیت پہ آنچ نہ آنے دی۔ مشکلات و مصائب کی دس گھڑیاں بھی دس صدیاں بن جاتی ہیں لیکن یہاں تو مصائب کے دس دن تھے جانے کیسے گزرے ہوں گے۔ آخر کار چاند کی دسویں بھی آ گئی، کرب اور ابتلا عروج پہ ہے، اصل امتحان شروع ہوا چاہتا ہے، وہاں بیٹے کو ذبح باپ نے کرنا ہے راہنمائی اور حوصلہ افزائی کیلیے باپ پاس موجود ہے، یہاں معاملہ الٹ ہے گردن ظالم فاسق و فاجر دشمن نے کاٹنی ہے اکیلے کی نہیں کاٹنی پورے گھرانے اور گھرانے کے وفاداروں کی کاٹنی ہے  پھر جب سرخ ریت کا خاک و خون کا طوفان تھما تو چشم فلک نے حیرت سے دیکھا کہ جبر ہار گیا مظلوم جیت گیا، قربانی دی جا چکی تھی، کامیابی حاصل ہو چکی تھی سر نیزے پہ چڑھے معلم کی کامیاب تربیت کی گواہی دے رہے تھے اور دشمن بینام و نشان ہونے جا رہے تھے،لیکن قربانی کا اختتام ابھی نہیں ہوا تھا۔ سیدہ ہاجرہ نے بھی تو اس قربانی کیلیے تگ و دو کی تھی ان کی بیٹیوں کا امتحان بھی تو ہونا تھا،یہاں بھی چشم فلک نے دیکھا کہ سیدہ ہاجرہؑ کی نسل اور سیدہ زائرہ کی بیٹیوں نے ماؤں کے مان کو ٹوٹنے نہ دیا سیدہ زینب کی قیادت میں ان پاکیزگی کے عظیم استعاروں نے سیدنا حسین کا علم تھام لیا اور فاسق فاجر اور ظالم سلطان کے روبرو کھڑے ہو کر کلمہ حق بلند رکھا بھوکے پیاسے قافلے کی سالار سیدہ نے فصاحت و بلاغت کے ایسے دریا بہائے جو خاندان نبوت کا ہی خاصہ تھے کسی اور کیلئے ممکن نہ تھے ۔خاندان نبوت کا ایسا کامیاب مقدمہ لڑا کہ تاقیامت کوئی یزیدی بڑے سے بڑے جھوٹ کا سہارا لیکر بھی ان دلائل کو رد نہیں کرسکتا۔ آپ سلام علیہا جن کٹھن اور جان لیوا مراحل سے گزری تھیں اگر انھیں اپنے حواس پہ سوار لیتیں ہمت ہار بیٹھتیں اور اپنے حصے کا کردار ادا نہ کر سکتی تو شاید یزید اور اس کے ہمنواؤں کا یہ پروپگنڈہ کامیاب ہو جاتا کہ کسی باغی کے خلاف کاروائی کی گئی ہے لیکن سلام اے بنت پیغمبر کہ آپ نے بھائی کی قربانی کو منطقی انجام تک پہنچایا اور تاقیامت حق و باطل کا فرق واضح فرما دیا!!

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم 
نہایت اسکی حسینؑ ابتداہے اسماعیلؑ

مزیدخبریں