اُردو…ہماری پیاری زبان

ہماری قومی زبان کے مسئلے پر زیادہ تر سیاسی نقطہ نگاہ سے غور کیا گیا ہے اور آج کل سیاست کی بنیاد خود غرضی، تنگ نظری اور ذاتی مفاد پر ہے۔ اس لیے یہ مسئلہ جو پاکستان کی بقا، ترقی اور آئندہ خوشحالی سے بہت ہی گہرا تعلق رکھتا تھا، خود غرضیوں، غلط فہمیوں اور سیاسی تعصبات کی نذر ہو گیا۔
یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ وطن عزیز میں قومی زبان کے نفاذ سے عوام کی صلاحیتیں اور قوتیں اس زبان میں شامل ہو جائیں گی اور آپ دیکھیں گے کہ سارے لسانی اور اصطلاحات کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اور ایک معیاری دفتری زبان چند سالوں کے اندر اندر سامنے آجائے گی جو ایک تو ہمارے قومی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو گی اور دوسری طرف معاشرے میں حقیقی یک جہتی کو جنم دے کر وطن عزیز میں جس میں عوام اور حکومت مل کر افہام و تفہیم سے مسائل حل کر رہے ہوں گے۔ گذشتہ ۶۲ سال میں ہم نے عوام کو، ان کی خواہشات اور امنگوں کو، ان کے اخلاص و جذبہ ایثار کو نظر انداز کیا ہے اور مسائل کو حل کرنے کے لیے استعمال ہی نہیں کیا ہے۔ صرف طبقہ خواص کے مفادات کی حفاظت کی اور باقی سب کو نظر انداز کیا ہے اور اس کے نتائج ہماری تاریخ میں لکھے ہوئے ہمیں دور سے نظر آرہے ہیں۔
ایک دلچسپ واقعہ نذر قارئین ہے۔ ۱۹۴۵ء میں جب دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی اور جاپان پر امریکہ کا قبضہ ہو گیا تو شہنشاہ جاپان نے امریکہ و جاپان کے درمیان ہونے والے معاہدہ کے سلسلے میں صرف ایک بات کی جو اس وقت کے حالات کے پیش نظر بڑی غیر اہم سی نظر آتی تھی اور جسے امریکیوں نے فوراً تسلیم کر لیا۔ شہنشاہ نے جو غیراہم اور بے معنی سی بات معاہدہ میں شامل کرنے کے لیے کہی وہ یہ تھی کہ جاپان میں سکولوں سے لے کر یونیورسٹی تک جاپانی زبان ہی کو باقی و مروج رکھا جائے گا۔
اب آپ بھی سوچئے جب سارا جاپان جل رہا تھا۔ ہیروشیما اور ناگاساکی قبرستان بن چکے تھے اور شکست نے ساری قوم کو ساکت و صامت کر دیا تھا۔ آخر شہنشاہ جاپان نے ایسی بے معنی و غیراہم بات کیوں کہی تھی؟ کیا اس بات کے نتائج جاپان کی تاریخ میں سامنے نہیں آئے، اگر آئے تو وہ کیا تھے؟ اگر وہ ایسے ہیں جن کو اختیار کرنا چاہیے تو پھر ہم کیوں تاخیر کر رہے ہیں؟
بھارت میں جہاں ۱۷۹ زبانیں اور ۵۴۴ بولیاں بولی جاتی ہیں۔ ہندی کو قومی زبان بنا لیا گیا۔ آخر انہوں نے ایسا کیوں کیا؟اور جو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے ۱۹۴۸ء میں کہا تھا کہ: ’’اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو اس کی سرکاری زبان ایک ہی ہو سکتی ہے اور وہ اُردو اور صرف اُردو ہے۔‘‘ …تو کیا یہ واقعی غلط تھی؟
ـء…ـئء…ء

ای پیپر دی نیشن