سرسیّد احمدخاں کے تعلیمی نظریات

 سر سیّد احمد خاں کو خود بھی احساس تھا کہ وہ اپنی تعلیمی پالیسی مرتب کرنے میں آزاد نہیں تھے۔ فرماتے ہیں : 

’’ہماری پوری تعلیم اس وقت ہو گی جب کہ ہماری تعلیم ہمارے ہاتھ میں ہوگی۔ ہم آپ اپنی تعلیم کے مالک ہوں گے۔‘‘
… بادی النظر میں یہ ایک کامیاب حکمت عملی تھی۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان اسی حکمت عملی کا ثمرہ ہے لیکن اس سفر میں ہم نے کچھ کھویا بھی ہے۔ یہ نقصان اقدارو کردار کی حدوں میں واقع ہوا ہے۔
 سر سیّد کی تعلیمی پالیسی میں مرکزِ نظر کردار نہیں تھا۔ مادّی اور سیاسی مفاد تھے حالانکہ نہ صرف عینیّت کی رُو سے بلکہ عملی نقطۂ نظر سے بھی تعلیم کا اصل مقصود کردار ہی ہونا چاہیے۔ یہ نکتہ اس نظامِ تعلیم میں بھی نظرانداز تھا جسے اُنہوں نے ماڈل بنایا تھا، جیسا کہ سیّد امیر علی نے 1899ء میں اپنے ایک خطبے میں کہا : ’’کوئی شخص اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس سلسلۂ تعلیم میں جو اس ملک میں رائج ہے کریکٹر کی اصلاح، اخلاقی قویٰ کی تربیت اور نفس کی تہذیب ملحوظ رکھی گئی ہے۔ (خطبۂ صدارت آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس 1899ء)
 آج بھی بچوں کے لیے جو دیدہ زیب اور نہایت مفید لٹریچر مغربی ممالک سے چھپ کر آتا ہے اس میں سارا زور ذہنی تربیت، تفریح اور معلومات پر ہے اخلاقیات پر نہیں۔ فی زمانہ بچوں کی تعلیم کا مقصد ہے ذہنی نشوونما کا سامان اور معلومات مفیدہ مہیا کرنا، جہاں تک سماجی اخلاق کا تعلق ہے۔ قانون اپنی پابندی خود کرا لیتا ہے … یہ سائنسی دور ہے اور سائنس عقیدے کی جگہ تشکیک کو عملی ترقی کے لیے زیادہ مفید خیال کرتی ہے۔ خود بھی ایمانداری کے ساتھ اعتراف کرتی ہے کہ اخلاق کی عقلی اساس تلاش کرنے سے قاصر رہی ہے جو اس کے منطقی معیار پر کاملاً پوری اُتر سکے۔
 سرسیّد کے تعلیمی نظام میں مذہبی تعلیم کا بھی ایک مقام ضرور تھا۔ جیسے کہ فرمایا : ’’فلسفہ ہمارے دائیں ہاتھ میں ہو گا، نیچرل سائنس بائیں ہاتھ میں اور کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا تاج ہمارے سَر پر۔‘‘ انھوں نے اور بھی جگہ جگہ مذہب کی اہمیت اور اسلام کی برتری پر زور دیا ہے۔ وہ سائنس سے متاثر اور مرعوب تھے لیکن خود سائنسی دور کی پیداوار نہ تھے۔ انھوں نے عقل اور عقیدے میں سمجھوتا کرانے کی کوشش کی۔ توہمات اور لایعنی رسومات کے خلاف آواز اُٹھائی۔ مذہب کو اپنے نظامِ تعلیم کا جزو بنایا۔ اس حد تک وہ یورپ کے مدارس میں بھی دخیل تھا یعنی وہ تعلیمی نظام جسے یورپ سے مستعار لے رہے تھے ان کے ایمانی تقاضوں میں مزاحم نہ تھا بلکہ موافق و موید تھا۔ اُن کے معاصر اس بات پر ناراض تھے کہ انھوں نے معتزلہ کی طرح معقول کو منقول کی کسوٹی بنایا، لیکن یہ صورت غالباً اس سے بہتر تھی کہ ذہن جدید منقول کو غیر منقول سمجھ کر رَد کر دے۔
 سر سیّد ایک شکست خوردہ خستہ و پسماندہ، جہالت زدہ قوم میں ایک سرگرم عمل اور روشن خیال انسان بن کر اُبھرے۔ یہ اُن کی شخصیت کا ایک مثبت اور بڑا وقیع پہلو ہے کہ وہ اپنے معتقدات پر نظرِثانی کرنے اور حالات سے سمجھوتا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور حقیقت ایک فعال اور ڈائنامک (Dynamic) شخصیت کے مالک تھے۔
 چونکہ زیرِ بحث سرسیّد کے تعلیمی نظریات ہیں اس لیے میں علامہ اقبالؒ کا نام خاص طورپرلُوں گا جو تعلیم کے میدان کے عملی کارکن تو نہ تھے لیکن تعلیمی مفکر تھے اور ان کے ہاں سارا زور تعمیرکردار پرہے جس کی مثال دور دور نہیں مل سکتی۔ سرسیّد کو مغرب نے موہ لیا تھا۔ وہ بار بار مشرق کے ’’مُردہ تمدّن‘‘، ’’مُردہ علوم‘‘، ’’مُردہ شائستگی‘‘ (تہذیب) اور مُردہ زبانوں کا نام لیتے ہیں جو صداقت سے بالکل خالی نہ ہونے پر بھی گراں گذرنے لگتاہے۔ اس کے برخلاف اقبال اسی مشرق کے ثناخواں اور مغرب کے نکتہ چیں ہیں۔ سرسیّد اور حالیؔ نے حال کی پستی کی طرف توجہ دلائی تھی، اقبال نے مستقبل کے لیے قیادت و سیادت کی بشارت دی۔ بلاشبہ تاریخ میں کسی قوم کو بھی اس پائے کے جوش اور غیرت دلانے اور آسمان پر پہنچانے والے ثناخواں نہیں مِلے۔ مگر معلو م ہوا کہ محض قصیدہ خوانی کسی بادشاہ کے مزاج کو سنوار سکتی ہے نہ کسی قوم کی تقدیر کو، بلکہ یہ خود غلط بنا سکتی ہے۔ جادو سرسیّد ہی کی تعلیم کا چلا اور سَر چڑھ کر بولا۔
 سرسیّد آئیڈیلیسٹ نہیں ،حقیقت شناس، مصلح قوم اور سیاسی لیڈر تھے جس کے لیے مصلحت اندیشی سے کام لینا لازم ہے۔ یہ درست ہے کہ انھوں نے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت کے بعد سرکار برطانیہ کی اطاعت بھی بمقتضائے وقت لازم قرار دی اور اولی الامر منکم کی تاویل بھی کی لیکن ہم جو عملاً سرکار کی اطاعت کرتے رہے تو وہ کچھ سرسیّد ہی کی تلقین کے زیرِ اثر نہ تھا۔ بندگی بے چارگی کا مقولہ یہیں صادق آتا ہے۔ اس امر میں کچھ ہم ہی موردِ الزام نہیں ساری ہی وہ دنیا تھی جسے آج تیسری دُنیا کہا جاتا ہے۔ غلامی مادّی نقصان سے زیادہ کردار کے نقصان کا باعث ہوتی ہے۔ غیرت کو کچلتی اور گونا گوں اخلاقی کمزوریوں کو راہ دیتی ہے جس کے آثار اب تک تیسری دُنیا میں دکھائی دیتے ہیں۔
 ایک مضمون میں جس کا عنوان ہے ’’ہماری تعلیم ہماری زبان میں‘‘ (تہذیب الاخلاق بابت 1298ھ مطابق 1880ء) لکھتے ہیں : 
’’یہ خیال بہت پُرانا ہے کہ اگر ہماری تعلیم مادری زبان میں ہو توہمارے لیے اورملک کی ترقی کے لیے زیادہ تر مفید ہے۔ لارڈ میکالے سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس پربُہت کچھ عمل کیا تھا۔ کلکتے میں ایک سوسائٹی کتابوں کے ترجمے کے لیے قائم کی تھی اوربہت سی کتابیں ترجمہ بھی کی تھیں جن کا اب کہیں نشان بھی نہیں ملتا۔ پھر دہلی کالج میںاس پربہت کام ہوا اورزرِ کثیر ترجموں اوران کے چھاپنے پر خرچ ہوا۔ اب وہ کتابیں جہاں دستیاب ہوتی ہیں، ردّی کی قیمت سے بھی کم قیمت ہیں۔ پھر بانیان سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ نے اس مسئلے کو اہم سمجھا اور وہ سوسائٹی اسی مقصد سے قائم کی کہ علوم وفنون کی کتابیں اپنی زبان میں ترجمہ ہو کر شائع ہوں مگر وہ  بھی کامیاب نہ ہوئی… ملک تعلیم سے خالی ہے اور جب تعلیم یافتہ اشخاص ملک میں نہیں ہیں تو کتابوں کا شیوع ناممکن ہے۔ ہم دل سے اس بات کو تسلیم کرتے ہیںمگراس واقع سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ورنیکولر میں کتابوں کی موجودگی ملک کو تعلیم یافتہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی اور مزید برآں یہ کہتے ہیں کہ مشرقی علوم یا زبان کی ترقی یا ان میں علمی کتابوں کا ترجمہ ہم کو تعلیم یافتہ نہیں بنا سکتا۔‘‘ 
 مگر ٹھنڈے دل سے غور کیجیے کہ جب تک حکومت ہی نہ چاہے ، اوربقول سرسیّد اپنی تعلیم اپنے ہاتھ میں نہ ہو، انگریز حاکموں یا ان کے دیسی جانشینوں کے ہاتھ میں ہو تو اپنی زبان کے فروغ کے لیے ساری کوششیں عبث اور قومی دولت کا ضیاع نہیں تو کیا ہیں؟ مختصر یہ کہ جولوگ تاریخ ساز ہوتے ہیں وہ دراصل تاریخی قوتوں کے آلہ کار بھی ہوتے ہیں۔ ان کی تعلیمی پالیسی سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کے خلوص، نیّت، قومی دردمندی، اصلاحِ قومی کے ولولے، اعلیٰ ذہنی قابلیتوں اور کردار کی گونا گوں خوبیوں سے انکار نہیں ہو سکتا۔
 وطنِ عزیز پاکستان کے لیے سرسیّد احمد خاں کے سامنے سر عقیدت جھکانا اس لیے لازم ہے کہ معنوی طورپر اس کی پہلی اینٹ سرسیّد احمد خاں نے ہی رکھی تھی۔


uuu

سید روح الامین....برسرمطلب

ای پیپر دی نیشن