’’دوقتل معاف‘‘

اصغر علی گھرال
بچے نے پوچھا… ابا، ہمارے ہاں بجلی اور پانی دونوں کمیاب ہیں البتہ لوڈشیڈنگ کا راج ہے اور لوڈشیڈنگ سے بُرا حال ہے اس محکمے کا وزیر کون ہے؟باپ: بیٹا! مجھے لوڈشیڈنگ کے وفاقی وزیر کا نام یاد نہیں رہتا ایک سابق فوجی حکمران کے نام سے ملتا جلتا ’’بھلا‘‘ سا نام ہے۔بچہ: اور ان کا حلیہ مبارک؟باپ: میں نے انہیں کبھی غور سے نہیں دیکھا تھا، تاہم گزشتہ سال انہوں نے جب کالا باغ ڈیم منصوبے کو قتل کرنے کا اعلان کیا تو ضرور غور سے دیکھا تھا مجھے ان کا حلیہ تارا مسیح سے مشابہ نظر آیا۔
بچہ: ابا جی! وہ پانی سے کیوں ڈرتے ہیں، کیا ان کو ہائیڈرو فوبیا ہے؟باپ: دورغ بر گردن راوی شنید ہے، کہ بچپن میں ایک کتورے سے کھیلتے ہوئے کوئی شک گزرا، اینٹی ریبی ٹیکے لگوانے پڑے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے بچا لیا۔ شاید اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس رعایا کو زبان سے زیادہ عذاب میں مبتلا رکھنے کے لئے اس سے بہتر ’’راجہ‘‘ میسر نہیں تھا۔وہ پانی سے ایسے ہی ڈرتے ہیں، جیسے سگ گزیدہ ڈرتے ہیں وہ پاور پلانٹس کی خریداری پر خوش رہتے ہیں تھرمل کے لئے خزانے خالی کر دیں گے۔ توانائی کے لئے ہوا سے ہوائی قلعے تعمیر کریں گے سولر کے لئے سورج سے ’’پنگا‘‘ لیں گے۔ تھرکول بیوٹی پارلر سے چہروں کومزید سنوارنے کا ذکر کریں گے یہ اپنی جگہ تمام وسائل ضروری سہی۔ مگر وہ ’’پانی‘‘ کے سستا ترین ذریعے ہائیڈل پاور کا ذکر نہیں کریں گے۔ کالا باغ ڈیم کے مقام پر ’’سٹارٹ‘‘ لینے کے لئے تیار ڈیم کا کبھی نام نہیں لیں گے! اگر وزیراعظم یا کوئی سابق وزیراعظم کالا باغ ڈیم کے حوالے سے رسمی سا بیان بھی جاری کر دے کہ ہم کالا باغ ڈیم چاروں صوبوں کی رضا مندی اور تعاون سے بنائیں گے۔ جیسا کہ وزیر خزانہ پنجاب نے اپنی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں کالا باغ ڈیم کو زندہ رکھنے کی رسم نبھائی ہے۔تو ان کو بڑی تکلیف ہوتی ہے کہنے لگے، مجھے یاد آ رہا ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو کے زمانے میں ملک غلام مصطفیٰ کھر پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر تھے تو انہوں نے کالا باغ کے حق میں تقریروں سے ملک بھر کے اندر طوفان اٹھا رکھا تھا۔ان وزیر صاحب کی طرف سے کالا باغ ڈیم کو قتل کرنے کے حوالے سے ایک دوست نے عجیب سا واقعہ سنایا۔ کہنے لگے کوٹری بیراج یا غلام محمدبیراج آباد ہوا تو ہمیں بھی وہاں کچھ رقبہ ملا۔ یہ 1962ء کی بات ہے۔ ہم وہاں آباد کاری کے حوالے سے اپنے کامدار اور ہاریوں کا کام دیکھنے گئے۔ وہ سندھ کا انتہائی پسماندہ علاقہ تھا جاگیرداروں اور وڈیروں کے سامنے ہاریوں اور مزارعین کی حیثیت زر خرید غلاموں سے بھی بدتر تھی!کہنے لگے۔ ایک دن ایک عمر رسیدہ سندھی ہاری میرے ڈیرے پر بیٹھا تھا اس کو معلوم ہوا کہ میں ’’بیرشٹر ‘‘ ہوں انہی کا خیال تھا کہ ’’بیرشٹر‘‘ بڑی بلا ہوتا ہے۔ باتوں باتوں میں سندھی ہاری پوچھنے لگا ’’وڈیرا سائیں! آپ کو کتنے قتل معاف ہیں؟‘‘ مجھے اس سوال پر بڑی حیرت ہوئی تاہم دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ مطلق العنان بادشاہوں کی طرح (جن سے کلام کرتے ہوئے جان کی امان طلب کی جاتی ہے) ان لوگوں کا اپنے وڈیروں کے بارے میں بھی یہ تصور ہے کہ ان کو کچھ قتل معاف ہوتے ہیں اور ان کی تعداد کا تعین ان کی سماجی حیثیت کے مطابق ہوتا ہے یعنی کوئی جاگیردار جتنا بڑا ہو گا اسے قتل بھی زیادہ معاف ہونگے!کہنے لگے مجھے چہیالیس (46) سال پہلے کا یہ واقعہ بھول چکا تھا۔ گزشتہ سال ایک شام ٹی وی پر خبریں ہو رہی تھیں، کہ وفاقی وزیر پانی و بجلی نے اچانک یہ خبر سنا کر بجلی گرا دی کہ کالا باغ کا منصوبہ ترک کر دیا گیا ہے تو میرا خون کھول اٹھا۔ میرا میٹر گھوم گیا کہ کالا باغ ڈیم قتل ہو گیا اس ’’شاک‘‘ کی کیفیت میں نہ جانے مجھے اس بوڑھے سندھی سے وہ مکالمہ کیوں یاد آ گیا اور زندگی میں پہلی دفعہ میرے ذہن میں اس شیطانی کی خواہش نے جنم لیا۔
’’کاش! مجھے دو قتل معاف ہوتے‘‘
(ضروری وضاحت: میں نے اپنے گزشتہ کالم ’’ہائے تھم کلادے آگیا ہے‘‘ میں انصاری برادری سے منسوب ایک ضرب المثال بیان کی تھی، میرا مقصد کسی کی دل آزاری ہر گز نہیں تھی۔ محض واقعات کی کڑیاں ملانے کیلئے گرہ باندھی تھی۔ اگر اس سے کسی انصاری بھائی کی دل آزاری ہوئی ہے تو اس سے صدق دل سے معذرت خواہ ہوں میرے لئے ہر ذات، ہر برادری محترم ہے)

ای پیپر دی نیشن