کالاباغ ڈیم … معذ رت خواہانہ رویہ کیوں؟

کالا باغ ڈیم کے حوالے سے دو خبریں ہیں۔ ایک اچھی ہے۔ ایک بُری! اچھی خبر یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں اسکے حوالے سے آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہے۔ بُری خبر یہ ہے کہ یہ آوازیں اتنی کمزور اور انتہائی معذرت خواہانہ انداز میں ہیں۔ جو نہ صرف بزدلی بلکہ شکست خوردہ ذہنیت کی آئینہ دار ہیں اور غیرمئوثر رہیں گی۔ مسلم لیگ ’ق‘ کے مرکزی رہنما اور پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ نے اس موضوع پر بسم اللہ کی ہے۔ کالا باغ ڈیم کا نام لیا ہے۔ اسکی تعمیر کا مطالبہ کیا ہے لیکن ساتھ ہی فرمایا ہے کہ اس سے پنجاب کو بے شک پانی نہ دیں۔ مسلم لیگ ’ن‘ کے قومی اسمبلی میں رکن یا ارکان نے اے این پی والوں کو کہا ہے کہ کالا باغ ڈیم کا نام بے شک پختونخوا رکھ لیں لیکن اسے تعمیر ہونے دیں مگر وہ تو اس ڈیم کا نام سن کر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ ’’نو‘‘ ’’نو‘‘ کے نعروں سے شور مچا دیا اور دونوں جماعتوں میں جھڑپ کی کیفیت پیدا ہو گئی۔کچھ دن ہوئے۔ قومی اسمبلی کی معزز رکن بشری ٰرحمن نے ہائوس میں انکشاف کیا تھا کہ انکے پاس شواہد موجود ہیں کہ پاکستان کے اندر بھارت نواز لابی کالا باغ ڈیم رکوانے کیلئے سرگرم ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ وقت آنے پر میں ’’ان مہربانوں‘‘ کے نام بھی ظاہر کر سکتی ہوں۔
صرف بشریٰ رحمان ہی نہیں۔ واٹر کونسل پاکستان کے چیئرمین اور عالمی پانی اسمبلی کے چیف کوآرڈینیٹر حافظ ظہورالحسن ڈاہر نے کونسل کی پالیسی ساز کمیٹی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ سنسنی خیز انکشاف کیا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے سندھ طاس واٹر کونسل کو غیرفعال کرنے کے بدلے بھاری رشوت کی پیش کش کی جسے ٹھکرا دیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ ’’را‘‘ نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر رکوانے کیلئے سندھ اور سرحد میں اربوں روپے خرچ کئے ہیں۔کیا آپ ڈیم کی مخالف بھارتی لابی اور اسکے ایجنٹوں کو دلائل سے قائل کر لیں گے؟ خوشامد اور منت سے کام چل جائیگا یا پنجاب کے 9 کروڑ عوام کو اُن کے حقوق سے محروم کر دینے سے اُن کا دل پسیج جائیگا؟۔
اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کیمطابق پاکستان پانی کی کمی کے حوالے سے دنیا کا متاثرہ ترین ملک ہے۔ آبی جارحیت کی وجہ سے اندازہ ہے کہ آئندہ تین سال بعد پاکستان کو بھوک، پیاس اور قحط سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ پانی اور بجلی کی کمی کے باعث پاکستان انتہائی خطرناک صورتحال سے دوچار ہے۔ اسکے کھیت ویران اور صنعت ٹھپ ہے اور ملک میں بے روزگاری کا وہ طوفان آرہا ہے جو سب کچھ بہا لے جائیگا۔ دوسری طرف قدرت نے کالا باغ ڈیم کی صورت میں ایک احسانِ عظیم کر رکھا ہے یہ Site فطرت کا شاہکار ہے۔ اسکے تین طرف پہاڑ اور صرف ایک طرف دیوار درکار ہے۔ اس کا سپل وے پیندے سے بھی 50 فٹ نیچے ہے۔ اس میں سِلٹ جمع ہونے کا سوال نہیں ہے۔ یوں اسکی لائف لامحدود ہے۔ اسکی فزے بلٹی رپورٹ تیار ہے۔ انفراسٹرکچر موجود ہے۔ ریلوے ٹریک، پختہ سڑکیں، دفاتر رہائشی کوارٹرز اور ہر قسم کی مشینری پر 2۔ ارب سے زیادہ خرچ ہو چکا ہے۔ اِذنِ تعمیر ہوتے ہی کام شروع ہو سکتا ہے اور 4 سال بعد یہ ڈیم نہ صرف وافر پانی اور سستی ترین بجلی سے پاکستان کو نہال کر دیگا‘ بلکہ چار ہی سالوں میں اپنی ساری لاگت بھی لوٹا دے گا۔ ہم کو کفرانِ نعمت کی سزا مل رہی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ اگر تین صوبے نہیں مانتے اور وفاق دلچسپی نہیں لیتا تو اس کا حل کیا ہے؟ آخر ہر مسئلے کا کوئی متبادل حل بھی تو ہوتا ہے۔اس مسئلے کا متبادل حل بھی موجود ہے۔ آبی ماہرین نے جن میں سرحد سے سابق چیئرمین واپڈا اور ریٹائرڈ جرنیل شامل ہیں۔ باقی تین صوبوں کے رویہ سے مایوس ہو کر یہ تجویز دے رکھی ہے کہ پنجاب دریائے سندھ میں صرف اپنے حصے کا پانی سٹور کرنے کیلئے دیواریں نیچی رکھ کر کالا باغ ڈیم تعمیر کر لے۔
اگرچہ اے این پی والوں کو مطمئن کرنے کیلئے پہلے ہی نقشہ میں ڈیم کی بلندی 925 فٹ سے کم کر کے 915 فٹ کر دی گئی مگر وہ مطمئن نہیں ہوئے۔ اب اور بھی نیچے کر دی جائیگی۔ یوں ان کا اعتراض ہمیشہ کیلئے ختم ہوگا۔ سندھ اگر اپنے حصے کا پانی بدستور سمندر میں لے جانا چاہتا ہے تو یہ شوق پورا کر لے۔ بلوچستان سوچ لے کہ وہ اپنے حصے کے پانی کا کیا مصرف چاہتا ہے۔ جہاں تک کالا باغ ڈیم پنجاب برانڈ کی تعمیر کے مصارف کا سوال ہے۔ ورلڈ بنک اور عالمی ادارے اس ڈیم کیلئے شوق سے سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔ ویسے اسکے نام پر ’’بانڈ‘‘ جاری کئے جائیں تو اندرون ملک اور بالخصوص بیرون ملک ہمارے جوان پنجابی بھائی کال دینے پر دیکھیں کیسے سرمایہ جمع کرتے ہیں۔کالا باغ ڈیم بے چارے کی ایک ہی بدقسمتی رہی ہے کہ اس نے پنجاب کی سرزمین پر جنم لیا۔ کسی دوسرے صوبے میں ہوتا۔ تو 40 سال پہلے بن چکا ہوتا اور یہ ملک خوشحال ہوتا۔ باغ ڈیم کی تعمیر کی راہ میں صرف اس صوبے کی قیادت کی بزدلی اور نااہلی حائل ہے۔ ایک صاحب جنہوں نے امریکہ بہادر کی کالوں کو نظرانداز کر کے ایٹمی دھماکہ کیا۔ وہ ڈیم دھماکہ بھی کرنا چاہتے تھے مگر بھارتی لابی کی گیدڑ بھبکیوں سے اتنے ’’یرکے‘‘ کہ آج تک وہ اس ڈیم کا نام نہیں لیتے۔ پنجاب حکومت نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے گو بجٹ میں دس لاکھ روپے رکھے ہیں تاہم یہ خوش آئند علامت ہے کہ کالاباغ ڈیم کا منصوبہ ابھی زندہ ہے۔ پنجاب اپنا ڈیم بنائے‘ وافر پانی اور سستی بجلی سے صوبے کو خوشحال کرے‘ یہ تین صوبے خود ترلہ منت کرینگے کہ ہمارا پانی بھی سٹور کر دو۔

ای پیپر دی نیشن