مذہبی اجتماعات بھی دہشت گردوں سے محفوظ نہ رہے

ایم ریاض
11مئی کے عام انتخابات میںصوبہ خیبرپختونخوامیںپاکستان تحریک انصاف اکثریتی جماعت کے طورپرسامنے آنے کے بعدیہ خیال کیاجارہاتھاکہ صوبہ میںامن وامان کی صورتحال قدرے بہترہوجائے گی اوردہشت گردی میںکافی حدتک کمی واقع ہوگی خودتحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی اس دہشت گردی کے سخت خلاف واضح مو¿قف رکھتے تھے اور یہ باور کرانا چاہ رہے تھے کہ طالبان کیساتھ مذاکرات کا عمل شروع کریں گے اور مذاکرات کے ذریعہ اس د ہشتگردی کاحل نکالاجائے گاکیونکہ یہ پاکستان کی جنگ نہیںمگرصوبہ میںتحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد دہشت گردی کے حالیہ دونئے واقعات جس میں ہنگو اور شیر گڑھ میں ہونے والی فائرنگ اور خود کش حملے شامل ہیں ان واقعات نے بڑے سوالات کو جنم دیا ہے ۔اب دیکھناپڑے گاکہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں امن کے سلسلہ میںکیااقدامات اٹھاتی ہیں۔صوبہ خیبرپختونخوامیںتحریک انصاف کی35نشستیںآنے کے بعد جماعت اسلامی،قومی وطن پارٹی اورعوامی جمہوری اتحادکے ساتھ حکومت سازی کے حوالہ سے رابطوںکاسلسلہ شروع کیاجس کے نتیجہ میںان چاروںسیاسی جماعتوںنے مل کرحکومت بنانے کاعزم کیا اور ساتھ حکومت چلانے کی بڑی وجہ یہ بتائی کہ ہم سبھی جماعتوں کی سوچ اور ایجنڈا ایک ہے۔ یوں خیبرپختونخواہ اسمبلی کے معرض وجودمیںآنے کے 3ہفتوںکے اندر اب تک 2ارکان صوبائی اسمبلی اپنی جانوںسے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں ۔دونوںمقتول ارکان صوبائی اسمبلی آزادحیثیت میںمنتخب ہوئے اور بعدمیںصوبہ کی حکمران پاکستان تحریک انصاف کے حامی بنے 11مئی کے عام انتخابات کے نتیجہ میںمنتخب ہونے والی خیبرپختونخواہ اسمبلی کے نومنتخب ارکان نے 29مئی کوصوبائی اسمبلی کی رکنیت کاحلف اٹھایااورحلف برداری کے5روزبعدہنگوسے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے42سے منتخب ہونے والے فریدخان کونامعلوم افرادنے اس وقت فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتاردیاجب وہ ہنگومیںتحریک انصاف کے کارکن کی عیادت کے بعداپنی رہائش گاہ کی جانب جارہے تھے فریدخان اس حلقہ سے آزادحیثیت میںمنتخب ہوئے تھے اوربعدمیںپاکستان تحریک انصاف میںشامل ہوئے حلف برداری کے ایک ہفتہ کے اندرایک رکن اسمبلی کے قتل کے واقعہ نے پورے صوبہ کو ہلا کررکھ دیاابھی فریدخان کے قتل کامعمہ حل نہ ہواتھاکہ 18جون کومنگل کے روزمردان کے علاقہ شیرگڑھ کے گاﺅںشاہ زمان قلعہ میںنمازجنازہ کے موقع پرخودکش بم دھماکہ میںمردان کے حلقہ پی کے27سے منتخب ہونے والے ایم پی اے عمران خان مہمندلقمہ اجل بن گئے ہیں۔ اس دھماکہ میں عمران مہمند کیساتھ 31دیگر افراد بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 67کے قریب افراد زخمی ہوئے ۔عمران خان مہمندنے آزادحیثیت میںایم پی اے منتخب ہونے کے بعدصوبائی اسمبلی میںحکومت سازی کے دوران پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کی تھی۔ خیبرپختونخوااسمبلی کے سابقہ دور میں اور اب جس طرح ارکان اسمبلی نے اپنی جانوںکا نذرانہ پیش کیا ہے اس سے صوبہ میںامن وامان سے متعلق عوامی خدشات میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ اطلاعات بھی ہیںکہ عمران مہمندکواس سے قبل بھی جان سے مارنے کی دھمکیاںملی ہوئی تھی صوبائی وزیر اطلاعات وصحت شوکت یوسفزئی نے منگل کے روز لیڈی ریڈنگ ہسپتال میںشیر گڑھ کے زخمیوں کی عیادت کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت طویل عرصہ سے بدامنی کے شکار اس خطہ میں امن لانے اور مزید خون خرابہ بند کرانے کیلئے کھلے دل سے مذاکرات چاہتی ہے کیونکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ ہماری نہیں بلکہ ہم پر مسلط کردہ ہے اور ہم ہر صورت اس جنگ سے نکلنا چاہتے ہیں انہوںنے کہا کہ آپریشن اس مسئلہ کا حل نہیں اگر آپریشن ہی حل ہوتا تو یہ کئی سال پہلے ختم ہوجاتی اور اس خطہ میں امن ہوتا۔ انہوں نے اس کے ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ پرامن پاکستان کیلئے پرامن خیبر پختونخوکا ہونا ضروری ہے لہذا نئی حکومت بننے کے بعداگران2بڑے واقعات پرنظردواڑئی جائے توامن وامان کے قیام کے بارے میں ابھی ہی سے بڑے سوالات سر اٹھاناشروع ہوگئے ہیںاگروزیراعلی پرویزخٹک کی سربراہی میںامن وامان کے حوالہ سے موثراقدامات نہ اٹھائے گئے توعین ممکن ہے کہ اس بدامنی میںمزیداضافہ ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...