”دلدل“

جہاز سے اترتے ہی برطانوی قانون کی عملداری ختم‘ پاکستان کی شروع ہو گئی۔اے آرنوشاد جو برطانیہ جانے سے قبل اللہ رکھاتھا‘ اپنے 11 سالہ بیٹے کے ساتھ بغیر کسی پروگرام کے پاکستان آیا۔ تھری پیس میں ملبوس اللہ رکھا نے ائرپورٹ پر اپنا سامان بعد میں سنبھالا پہلے اپنے بیٹے کو ٹائی سے پکڑ کر جھنجوڑا پھر ایک تھپڑ سیدھے دوسرا الٹے ہاتھ سے مارا۔اسی ایکشن میں جو تاا تار کر ٹھکائی شروع کر دی۔ وہاں موجود لوگوں نے رکھے کا ہاتھ تو روک دیا ،مگر اسکی زبان بدستور چل رہی تھی ” اب بلا¶ اپنے باپ پولیس والوں کو۔۔۔“ لوگوں نے پاکستان میں داخل ہوتے ہی پاکستانیت کی لہر اٹھنے اوربہار آنے کی وجہ پوچھی تو رکھا پھنکارا‘” مانچسٹر میں اسے ڈانٹا تو اس نے پولیس کو تشدد کی رپورٹ کر دی‘ تین ماہ کی جیل کے بعد پہلی فلائٹ میں اسے سبق سکھانے کے لئے پاکستان لایا ہوں....
 بیرسٹر نعیم بٹ‘ رضا الدین صدیقی کی میزبانی کی مجلس میں بتا رہے تھے کہ پاکستان سے گئے ایک فیملی کے مہمان ان کے نو سال کے بچے کے ساتھ گھومنے گئے۔ راستے میں کسی بات پر مہمان نے بچے کو ہلکا سا تھپڑ ماردیا۔ کسی خاتون نے اس منظر کو دیکھا اور پولیس کو گاڑی کا نمبر نوٹ کرا دیا۔ پولیس نے گھر ٹریس کیا۔ تھوڑی سے تحقیق سے پتہ چل گیا کہ گاڑی میں مہمان اور اس کا بھانجا تھے۔ پولیس نے اسی وقت مہمان کو ڈی پورٹ کرنے کی کارروائی شروع کر دی۔ گھر والے پریشان تھے۔ بچے نے پولیس سے درخواست کی کہ اس کے ماموں کو ڈی پورٹ نہ کریں۔ انہوں نے ایسا کوئی تشدد نہیں کیا ایسی ڈانٹ ڈپٹ تو امی اور ابو بھی کر لیتے ہیں۔ اس پر پولیس نے حیران ہو کر بچے سے پوچھا کیا تمہارے ابو اور امی بھی تم پر تشدد کرتے ہیں؟ سوال کا برطانوی پولیس کو مزید جواب درکار نہیں تھا۔ پولیس نے اسی وقت قرار دے دیا کہ بچے ایسے والدین کے پاس غیر محفوظ ہیں۔ اسی وقت تینوں بچوں کو پولیس سوشل کیئر ڈیپارٹمنٹ لے گئی۔ تین میں سب سے چھوٹے کی عمر صرف دس ماہ تھی۔ اس پر ماں کی جو حالت تھی وہ ناقابل بیان ہے۔وہ کہہ رہی تھی کہ میرے بچے مجھے دیدو،میں شہریت اور سب کچھ چھوڑ کر پاکستان چلی جاﺅں گی ۔ تین دن بعداس خاندان ، خصوصی طور پرخاتون نے عذاب میں گزارے ۔بڑی مشکل سے چوتھے روز بچے واپس ملے جنہیں ان کی ماں پاکستان لے آئی۔کیا اس لئے کہ کھل کر پٹائی پر کوئی روک ٹوک نہیں ؟
 مغرب میں تشدد، عدم تشدد اور انسانیت کے حوالے سے جو قوانین ہیں انکے حکمرانوںاور عوام کا عمومی رویہ بھی اس کا عکاس ہے۔22مئی 2013 کو لندن میں دو شدت پسندوں نے ایک فوجی کو سرِعام خنجروں کے وار کرکے قتل کردیا۔ اس روز وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون فرانس کے دورے پر تھے انہوں نے فوری طورپر واپسی کا فیصلہ کیا اور کوبرا میٹنگ طلب کرلی۔ کوبرا میٹنگ ملکی سلامتی کو درپیش انتہائی خطرات کی صورت میں طلب کی جاتی ہے۔کیمرون نے سیکرٹری داخلہ تھریسا مے کو پہلے اجلاس کی صدارت کرنے کی ہدایت کی دوسرے کی صدارت لندن پہنچ کر خود کی۔ انگریز فوجی پر حملہ نائیجرین نژاد نو مسلموں نے کیا تھا جس پر مسلمانوں کیخلاف ردّعمل فطری امر تھا۔ مسلمانوں میں خوف و ہراس پایاجاتا تھا۔اس نازک مرحلے پربرطانوی سیاستدانوںاور میڈیا کا رویہ انتہائی محتاط رہا۔ وزیراعظم کیمرون نے اسے انفرادی جرم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسکا اسلامی تعلیمات اور مسلم آبادی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
 ہم جن ملکوں اور معاشروں میں رائج جمہوریت کی نقل کرتے ہیں وہاں انسانوں اورانسانیت کی قدر کی جاتی ہے۔ عام شہری اور بچوں تو کیاجانور کے حقوق کا تعین کرکے ان کی حفاظت کے قانون بنائے جاتے اور ان پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ہم متشدد معاشرہ بن چکے ہیں۔ بچوں پر تشدد کیلئے اپنا وطن آئیڈل ہے۔ اساتذہ کو مارکٹائی سے باز رکھنے کیلئے قانون سازی کرنا پڑتی ہے ۔بچے کے رونے پر اسے دیوار اور فرش پر پٹخ کر ابدی نیند سلا دیاجاتا ہے۔ایک پیاز اکھاڑنے پر چار سالہ بچی پر کتے چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔
 ہمارے ہاںجمہورت موجود ہے لیکن ہمارے رویئے آمرانہ ہیں۔قانون تو ہیں لیکن ان کا اطلاق شکل دیکھ کر ہوتا ہے۔مذہب، اخلاقیات ، تعلیم سے دوری،برتری کے زعم اور اختیارات سے تجاوز کے باعث معاشرے میں تشدداور ناانصافی کا عنصر بڑھ گیا ہے۔کمزور کو دبانے کو جرات،دلیری اور طاقتور کے سامنے سر جھکانے کو مصلحت اور ڈپلومیسی کا نام دیا جاتا ہے۔ پہلے قتل،ڈکیتی ، چوری اور زیادتی و آبروریزی کی پہلی واردات پر قانون حرکت میں آجاتا تومعاشرہ بہت سی برائیوں سے پاک ہوتا۔ دہشتگردی کے پہلے واقعہ پرڈیوڈ کیمرون اور برطانوی حکومت جیسا رد عمل ہوتا تو ہم ہزاروں لاشوں اور لاکھوں زخمیوں کو اٹھانے سے محفوظ رہتے۔ہمارے گھر،گلیاں، بازار حتیٰ کہ فوجی تنصیبات ، بیرکیں اور قلعہ نما جی ایچ کیو جیسی عمارتیں میدانِ جنگ نہ بنتیں۔پہلے ڈرون حملے پر سخت، اصولی اور قومی و ملکی مفادات کے کےمطابق موقف اپنایا اور رد عمل ظاہر کیا جاتا تودوسر ے اور پھر سیکڑوں حملوں کی نوبت نہ آتی۔مشرف جو کچھ چھوڑ گئے وہ پیپلز پارٹی کی حکومت بھگتنا پڑا اور آج میاں نواز شرف کی حکومت کو بھگت رہی ہے۔ایران نے پہلا ڈرون نہ گرایا ہوتا تو آج اس پر بھی ڈرونز کی برسات ہو رہی ہوتی۔ لندن میں دہشتگردی کی بڑی واردات سات جولائی2007ءکو ہوئی جب انڈر گراﺅنڈ ٹرین اور بس پر خودکش حملوں میں 52 افراد مارے گئے تھے ۔ اسکے بعد حکومت اور برطانوی عوام متحد نہ ہوتے تو برطانیہ ہماری طرح دہشتگردی کی لپیٹ میں ہوتا۔ ہم پچاس ہزار جانیں گنوا کر بھی ہوش میں نہیں آئے۔حکمران امریکی جنگ کو اپنی جنگ کہتے توہیں لیکن پوری قوم کو اس پر قائل نہیں کرسکے۔ پاکستان میں امریکہ کے حامیوں کی کمی نہیں وہیںشدت پسندوں کے موقف کو سراہنے والے بھی موجود ہیں۔دونوں کے نظریات ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ان سب کے متحد ہوئے بغیر دہشتگردی کی دلدل سے نکلنانا ممکن نظر آتا ہے ۔ان کو متحد کرنا اب آگ اور پانی کے ملاپ سے کم نہیں رہا۔کوئی بھی اپنی سوچ اور موقف بدلنے کو تیار نہیں۔میاں نوا ز شریف کی حکومت اگر قوم کو متحد کرنے میں کامیاب ہوجاتی تو پاکستان دہشتگردی کے گھن چکر، ڈرون حملوںکے بھنور اور بدامنی و لاقانونیت کی دلدل سے نکل سکتا ہے۔

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن