” زائرِینِ قائدِاعظمؒ “ ۔کی زیارت!

11اگست 2012ءکو ۔” نوائے وقت“۔ میں میری کالم نویسی کا، نیا دَور شروع ہُوا۔ پتہ چلا کہ۔” محترم حمید نظامی اور جناب مجید نظامی کی ،قیامِ پاکستان اور استحکام ِ پاکستان کے لئے خِدمات ،پاکستان کے بعد کی دوسری اور تیسری نسل کے دلوں میں بھی ،ریکارڈ ہو رہی ہیں۔مَیں نے اپنے بعض کالموں میں قائدِاعظمؒ کے چند جانثاروں،سرگودھاسے تحریکِ پاکستان کے ،مرحوم کارکنوں ۔ قاضی مُرید احمد ،قاضی محمد مقصود انور،میاں غلام رسول ،چودھری میاں خان اور شیخ محمد اشرف ایڈووکیٹ کا ،تبرکاً تذکرہ کِیا تو ،قاضی مُرید احمد کی بیٹی۔ محترمہ سعید ہ قاضی ،قاضی محمد مقصود انور کے بیٹے، قاضی محمد مطلوب خاور اور شیخ محمد اشرف کے بیٹے ،شیخ امجد اشرف ، اُن کے عزیز، ملک سعد اُللہ اور کُچھ دوسرے احباب نے ،مُجھ سے،موبائل پر، فرداً فرداً ۔جناب مجید نظامی سے اظہار ِ عقیدت کِیا ،لیکن بحیثیت مجموعی مجھے یہی تاثر دِیا کہ ۔”نوائے وقت“۔ کی پالیسی، گویا انہیں گھُٹّی میں پلائی گئی تھی“۔ زیارت میں قائدِاعظمؒ ریذیڈنسی پر حملے کے بعد۔17جون کو ۔” قائدِاعظمؒ تو، دِلوں میں بستے ہیں“۔ کے عنوان سے، میرا کالم شائع ہُوا تو، محترمہ سعیدہ قاضی نے فون پر بتایا کہ۔” مجھے ابّا جی۔ (قاضی مُرید احمد ) ۔بتایا کرتے تھے کہ ۔جب قائدِاعظمؒ بحالی ءصحت کے لئے۔”زیارت ریذیڈنسی“۔میں مُقیم تھے ،تو انہوں۔ (قاضی مُرید احمد)۔نے اور،سرگودھا کے ، تحریکِ پاکستان کے چند دوسرے کارکنوں نے، زیارت جا کر۔ قائدِاعظمؒ کی زیارت کی تھی۔ اُن میں۔ حکیم خورشید احمد ،سالار ِ ضلع مسلم لیگ نیشنل گارڈز ( بھلوال کے ) چودھری میاں خان، قاضی محمد مقصود انور ،میاں غلام رسول اور شیخ محمد اشرف ایڈووکیٹ بھی تھے“ ۔سرگودھا ۔یونینِسٹ پارٹی کا گڑھ تھا۔یونینِسٹ پارٹی کے ،متحدہ پنجاب کے وزیرِ اعظم ملک خضر حیات خان ٹوانہ کا تعلق ضلع سرگودھا سے تھا۔لیکن وہاں تحریکِ پاکستان کے بے شُمار کارکن تھے ۔ آج مَیں اپنے کالم میں، صِرف ،اُنہی بزرگوں کا تذکرہ کروں گا ،جنہوں نے، سرگودھا سے زیارت جا کر ، زیارت ریذیڈنسی میں، حضرت قائدِاعظمؒ کی زیارت کی تھی۔ قاضی مُرید احمدایم۔ایل۔اے رہے ۔وہ عُمر میں میرے والد صاحب سے، ایک سال بڑے تھے۔اُن سے میری پہلی ملاقات، حکیم خورشیداحمد کے مطب پر ہُوئی ،جہاں میرے والد صاحب مُجھے۔” دِکھانے کے لئے“۔ لے گئے تھے ۔مردانہ وجاہت کا نمونہ، حکیم خورشید احمد۔ایم ۔ایل۔اے ۔کا پُر رونق مطب ۔کسی سیاسی جماعت کا دفتر معلوم ہوتا تھا ۔اُن کی باغ و بہار شخصیت کی وجہ سے ، اُن کا ہر مریض ۔انہیں اپنا۔” فیملی حکیم “۔سمجھتا تھا ۔قاضی مُرید احمد ۔میرے علاوہ کئی دوسرے صحافیوں ،سے خاص شفقت کرتے تھے۔ وہ ہر عُمر اور ہر شخص کی ذہنی سطح کے مطابق گفتگو کر کے، اُسے اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے ۔ حضرت عیسیٰ ؑ کی اصطلاح کے مطابق۔ قاضی مُریداحمد۔”آدم گِیر“۔ تھے ۔، اُن کی قیادت میں ، 1961ءمیں مَیںنے ۔محترم حمید نظامی اور 1964ءمیںمادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی زیارت کی ۔جناب مجید نظامی کی پہلی بار زیارت کرنے کے لئے ، مُجھے کسی قائد کی ضرورت نہیں پڑی ۔مولانا عبدالستار خان نیازی، میانوالی سے لاہور آتے جاتے،جب کبھی سرگودھا ٹھہرتے تو، قاضی مُرید احمد کے مہمان ہوتے ۔1964ءمیں مَیں سرگودھا میں۔”نوائے وقت“۔ کا نامہ نگار تھا ۔میری دعوت پر مولانا عبدالستار خان نیازی، سرگودھا پریس کلب میں تشریف لائے ۔اگلی صُبح پولیس مجھے گرفتار کرنے کے لئے،میرے گھر پہنچی تو،مَیں ہمسائے کی دیوار پھاند کر کچہری بازار آگیا۔ کُچھ صحافی دوست ،قاضی مُرید احمد اور قاضی محمد مقصود انور،میرے ساتھ سُپرنٹنڈنٹ پولیس، چودھری عبدالحمیدباجوہ سے مِلے ۔معاملہ ختم ہو گیا۔11سال بعد،چودھری عبدالحمید باجوہ ۔ وزیرِاعظم بھٹو کے سیکورٹی آفیسر تھے ۔ لاہور کے دورے پرآئے تو، مسلسل تین روز تک،میرے دفتر تشریف لا کر۔” دوستانہ انداز میں“۔ مجھے میرے۔” فائدے کی باتیں“۔ سمجھاتے رہے ،جو مُجھے سمجھ نہیں آئیں ۔ پھر 15اکتوبر1975ءکو، وزیرِ اعلیٰ پنجاب نواب صادق حسین قریشی کی حکومت نے میرا اخبارروزنامہ۔”سیاست“۔بند کر دِیا۔جِسے 28دِن مسلسل سماعت کے بعد،جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب نے بحال کر دِیا۔قاضی محمد مقصود انور کا تعلق بھیرہ سے تھا ۔اُن کی ادویات کی دُکان میں ۔” دوائے دردِ دِل “ بھی فروخت ہوتی تھی ۔مُعمر عورتوں اور مردوں کو، مُفت کی حد تک ۔ رعایت کر دیتے تھے ۔اُن کی دُکان پر،صِرف ایک ہی تصویر۔ قائدِاعظمؒ کی تصویر۔ آویزاں تھی۔ میاں غلام رسول کو، وزیرِاعظم لیاقت علی خان کی شیروانی سینے کا اعزاز حاصل تھا ۔اُن کے کپڑے کی دُکان پر، فضول خرچی کی حد تک ،مہمان نوازی ہوتی تھی ۔میاں غلام رسول نے،اپنے کاریگروں سے، میرے علاوہ ،کئی صحافیوں کو، قِسطوں پر سُوٹ سِلوا کر دیئے ۔1960ئ/ 1961ءمیں اچھا سُوٹ ۔(کوٹ پتلون) ۔سِلائی سمیت دو سو روپے میں بن جاتا تھا۔ چودھری میاں خان نے ،قیامِ پاکستان سے کُچھ ہی دِن پہلے، دیہات سے، مسلمان نوجوانوں کو بُلوا کر، سرگودھا شہر میں، مسلم لیگ نیشنل گارڈز کے تحت اتنا بڑا جلوس نِکالا کہ ،نقصِ امن کا خطرہ پیدا ہو گیا ۔بھلوال میں چودھری میاں خان کا ۔” لنگر “۔تھا اور ایک پرائمری سکول جہاں غریب بچوں کو مُفت تعلیم دی جاتی تھی ۔چودھری صاحب کا ہفتہ وار ۔”ضربِ مجاہد“۔ اپنی مثال آپ تھا۔ مجھے ڈیڑھ سال تک ۔”ضربِ مجاہد“۔ کی ادارت کی سعادت حاصل رہی ۔شیخ محمد اشرف ایڈووکیٹ، عام طور پر فوجداری مقدمات لیتے تھے۔ مختلف دیہات میں اُن کا بہت اثرو رسوخ تھا۔ اُن کے بہت بڑے گھر میں ،اُن کے موکلوں کے قیام و طعام کا بہترین بندوبست ہوتا تھا ۔شیخ محمد اشرف لطیفہ گوئی کے بادشاہ تھے ۔وہ اپنے خلاف بھی لطیفہ سُن کر ہنس پڑتے تھے ۔عدالت میں اپنے موکلوں کی عام طور پر، پنجابی زبان میں وکالت کرتے تھے۔ قاضی مُرید احمد ، قاضی محمد مقصود انور ،میاں غلام رسول ،چودھری میاں خان اور شیخ محمد اشرف ایڈووکیٹ ،سرگودھا میں کونسل مسلم لیگ کے ستُون تھے ۔صدارتی انتخاب میں، مادرِملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی انتخابی مُہم میں۔ قائدِاعظمؒکے اِن بہادر سپاہیوں نے اپنی جانیں لڑا دی تھیں ۔نہ کوئی خوف اور نہ لالچ ۔مَیں نے قائدِ اعظم ؒ کی زیارت نہیں کی، لیکن اُن کی زیارت کرنے والے، اپنے بُزرگوں ،خاص طور پر مسلم لیگ نیشنل گارڈ زکی حیثیت سے، سِکھوں سے لڑ کر شہید ہونے والے، اپنے چچا،رانا فتح محمد اورپھُوپھا ،چودھری محمد صدیق اور اُن کے بعد، سرگودھا اور مختلف شہروں کے ،بے شمار زائرینِ قائدِاعظمؒ کی زیارت کی ہے ۔ایک فلمی گیت کے۔ ”مُکھڑے“۔میں، اگر۔” آسمانوں“ ۔کے بجائے۔” قائدِاعظمؒ“۔ پڑھا جائے تو یوں ہو گا ۔۔۔
 ” قائدِاعظمؒ ‘ ‘ ۔ کو تم دیکھو !۔۔۔۔ اور مَیں تمہیں ، ۔۔۔ دیکھتے ہُوئے دیکھوں “ 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...