اسلام آباد (بی بی سی/ نیٹ نیوز) بی بی سی نے کہا ہے کہ کئی سال کی لڑائی کے بعد امریکہ اور طالبان تو مذاکرات کی میز تک بظاہر پہنچ گئے ہیں، مگر پاکستان اس تناظر میں کہاں کھڑا ہے؟ افغان صدر حامد کرزئی کا حالیہ بیان اور اس پر پاکستانی تشویش یہ بتاتی ہے کہ دونوں ہمسایہ مملک کے تعلقات میں ابھی ’سب اچھا‘ نہیں۔ اسلام آباد میں افغان سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ دوستی کو اب ’پروٹوکول‘ دوستی سے آگے بڑھنا ہوگا۔ اب وقت ہے اس دوستی کو ’معنی خیز‘ بنانے کا۔ بڑھتی ہوئی افغان بے چینی کا بڑا سبب دبے لفظوں میں وہ توقعات ہیں جو انہیں پاکستان سے ہیں وہ پوری نہیں ہو رہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ افغان ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستان سے تین اہم مطالبات کیے تھے لیکن تینوں پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ پہلا مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان کی قید میں طالبان جن میں اسلامی تحریک کے بانی رکن ملا عبدالغنی برادر کو رہا کیا جائے۔ دوسرا مطالبہ ہے کہ دونوں ممالک کے علماء پر مشتمل کانفرنس منعقد کر کے جہاد کے خاتمے اور خودکش حملوں کو غیراسلامی قرار دیا جائے۔ تیسرا مطالبہ ہے کہ افغان حکومت کا پیغام طالبان تک پہنچا دیں۔ یعنی بالواسطہ رابطہ کرا دیں۔ پاکستان کا موقف ہے کہ ماضی میں بھی اس نے درجنوں طالبان قیدی رہا کئے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اکثر رہائی پانے والے دوبارہ میدان جنگ میں طالبان سے جاملے اور دوبارہ کارروائیاں شروع کر دیں۔ اسلام آباد میں سرکاری ذرائع نے بتایا کہ مزید قیدی رہا نہیں کئے جا سکتے کیونکہ ان میں سے ہر کوئی دوبارہ جا کر لڑنے کی بات کرتا ہے، امن مذاکرات میں شرکت کی نہیں۔ ایسے میں مزید رہائیوں کا شاید کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ صدر دراصل وہاں کی حزب اختلاف کی بولی بول رہے ہیں۔ جیسا کہ صدر کرزئی کے تازہ بیان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب بھی پاکستانی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جواب میں پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ تمام ملکی ادارے قومی سکیورٹی اور خارجہ پالیسی پر یک زبان ہیں۔ نواز شریف کی حکومت سے بھی اسی لئے وہ کوئی زیادہ توقعات وابستہ نہیں کر رہے ہیں۔ ایک افغان اہلکار نے کہا ’مسئلہ نواز شریف نہیں پاکستانی ادارے ہیں‘۔ افغان حکام کے لئے تاہم سب سے بڑی تشویش پاکستان کے شمالی اتحاد سے بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں۔ انہیں اس میں بھی کسی تازہ سازش کی بو آ رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان ماضی کے زخموں پر مرہم رکھ رہا ہے لیکن بات کچھ زیادہ سنگین ہے۔‘ اس کی وجہ شمالی اتحاد کے بعض رہنماو¿ں کی پاکستان بغیر اطلاع آمد بتائی جاتی ہے۔ شمالی اتحاد کے ایک رہنما سے جب بغیر اطلاع آمد کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ’علاج کی غرض سے آیا ہوں‘۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ پھر وزارت خارجہ کی گاڑی میں ان کا ائرپورٹ سے روانہ ہونا کیا بتاتا ہے۔ یہ صرف خدشات کو ہی جنم دے سکتا ہے۔ افغان سمجھتے ہیں کہ’پاکستان ریڈ لائنز‘ پار کر رہا تھا۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر پاکستان کے خدشات کیا ہیں، وہ کیوں ایسا کر رہا ہے۔ ’وہ کیوں ناخواندہ طالبان کو پڑھے لکھے افغانوں پر ترجیح دے رہا ہے۔‘ تجزیہ نگاروں کے مطابق عدم اعتماد کا مسئلہ صرف پاکستانیوں اور افغانوں میں نہیں باقی دو فریق طالبان اور امریکیوں کا بھی ایک دوسرے کی جانب یہی خیال ہے۔ چاروں فریق کوششوں کے باوجود ایک دوسرے کی ’خفیہ گیموں‘ کے بارے میں خدشات دور نہیں کر سکے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ افغانستان نے قطر دفتر کے مسئلے پر ناراض ہو کر امریکہ سے سکیورٹی مذاکرات ملتوی کر دئیے۔