اسلام آباد (آن لائن) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جمعرات کے روز میٹرو بس پراجیکٹ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میٹرو بس منصوبہ سے آئی ایٹ ون قبرستان کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے اور نہ ہی قبروں کی توہین ہونی چاہئے۔ عدالت نے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ سی ڈی اے کے افسران پر مشتمل تین رکنی کمیٹی بنائی جائے جو عدالت میں رپورٹ پیش کرے کہ قبرستان کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا بلکہ قبروں کو متبادل جگہ پر شفٹ کیا جائے۔ جمعرات کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں راجہ غلام فرید بنام چیف کمشنر اسلام آباد کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل سنگل بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل شکیل عباسی اور حکومتی وکیل فضل الرحمن نیازی عدالت میں پیش ہوئے۔ سی ڈی اے کے لیگل ایڈوائزر حافظ حفظ الرحمن سید بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ میٹرو بس منصوبے کی وجہ سے آئی ایٹ قبرستان میں موجود قبروں کو بلڈوزر کیساتھ ڈیمالش کیا جارہا ہے جوکہ قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ رواج بن چکا ہے کہ حکومتیں اپنی مرضی کیساتھ منصوبے چلاتی ہیں، اگر راستوں کے درمیان مخالف گروپ کی زمین آجائے تو منصوبوں کا رخ ان کی طرف موڑ دیا جاتا ہے جوکہ سراسر زیادتی ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سی ڈی اے افسران کو ہدایات جاری کیں کہ قبرستان میں موجود قبروں کو بلڈوزر کیساتھ ڈیمالش کرنے کی بجائے ان کیلئے متبادل جگہ کا بندوبست کیا جائے۔ سی ڈی اے کو ایک کنال کی بجائے پانچ کنال کی جگہ دینی چاہئے تاکہ یہ مسئلہ حل ہوسکے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ یہ قبرستان والا مسئلہ بہت حساس ہے۔ اگر اس طرح قبروں کی توہین کی گئی تو پوری قوم سڑکوں پر نکل آئے گی لہٰذا اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرانے کی کوشش کی جائے۔ عدالت نے کہا کہ میٹرو منصوبہ پبلک کیلئے ہے عدالت اس منصوبے کو ختم نہیں کرنا چاہتی لیکن اس منصوبے کی وجہ سے قبروں کی توہین نہیں ہونی چاہئے۔ اگر محکمے کی طررف سے قبروں کی توہین ہوئی تو عدالت میٹرو بس منصوبے کیخلاف بھی ایکشن لے سکتی ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت 27جون تک ملتوی کردی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ