یہ الجھنے کا نہیں مل بیٹھنے کا وقت ہے

پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین اورسابق صدرآصف علی زرداری کی دھماکہ خیزتقریر سے ملکی سیاست میں بھونچال آگیا ہے۔ ایک ایسے موقع پر کہ جب کراچی آپریشن ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے ¾انہوں نے جذباتی باتیں کر کے اشرافیہ کو ناراض کر دیا ہے۔لیکن اس معاملے کی تہہ تک ضرورجانا چاہئے کہ مفاہمت کی سیاست کا نعرہ بلند کرنے والے آصف علی زرداری اچانک مخاصمت پر کیوں مجبور ہوئے۔کراچی آپریشن دہشت گردی ¾ بھتہ خوری ¾ٹارگٹ کلنگ ¾لاقانونیت ¾اغوا برائے تاوان اورجرائم پیشہ عناصرکے خلاف شروع ہوا تھا اور جسے طوعاًوکرہاً سندھ حکومت نے قبول کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت سندھ اور رینجرز کے درمیان فاصلے بڑھتے گئے اور سندھ بجٹ کے بعداس آپریشن کا رخ اچانک معاشی دہشت گردی کے خلاف موڑ دیا گیا ہے ۔ سرکاری دفاتر پرچھاپوں اورگرفتاریوں کو سندھ حکومت نے اپنے مینڈیٹ پر دھاوا قراردیاہے۔سندھ حکومت شاکی ہے کہ رینجرز اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کررہی ہے اور یہ بات وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ڈی جی رینجرز کے نام اپنے ایک خط میں بھی کی ہے جس کے ان دنوں بڑے چرچے ہیں۔ سندھ میں نئی صورت حال میں آپیکس کمیٹی کی آئینی حیثیت اوررینجرزکے دائرہ کار واختیار پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔کرپشن اور بدانتظامی سندھ کاہی نہیںپورے ملک کا ناسور بن چکا ہے۔ہر ادارہ ہر شعبہ کرپشن اوربدانتظامی کی دلدل میں دھنسا ہواہے ۔ اس ناسور کا علاج ضروری ہے ¾کرپشن کو ختم ہونا چاہئے ¾حکمرانی کے اطوار بھی درست ہونے چاہیئں لیکن اس کے لئے پورے ملک میں بلاامتیاز اور بے رحم احتساب ہونا ضروری ہے ۔ قومی سطح پر کرپشن اوربدانتظامی کے خاتمہ کے لئے گرینڈ آپریشن ہونا چاہئے۔یہ تاثر اورپروپیگنڈہ ختم ہونا چاہئے کہ صرف سندھ لوٹ کھسوٹ کا شکار ہے ¾صرف پیپلزپارٹی ڈیلیورکرنے میں ناکام رہی ہے ¾ باقی سب ٹھیک چل رہاہے تو یہ بات نامناسب ہوگی ۔ ایک صوبے اور ایک پارٹی کے گرد گھیرا تنگ کرنے سے اداروںکی جانبداری پرحرف آئے گا اوروفاق کے خلاف سندھ میں منفی رویوں کو تقویت ملے گی۔وفاق کی مضبوطی کے لئے اس تاثر کو زائل کرنا ہوگا۔

آصف زرداری کی حالیہ تقریر پر پیپلزپارٹی کے مخالفین بغلیں بجارہے ہیں کہ جس پیپلزپارٹی کی مقبولیت اورعوامی طاقت کوپاکستان کی اشرافیہ اڑتالیس سالوں میںقیادتوں کے قتل عام کے باوجود بھی زک نہ پہنچاسکی اسے سابق صدر آصف علی زرداری کے جارحانہ بیان سے بہت نقصان کا اندیشہ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری نے خود کش دھماکہ کردیا ہے جس میں دوسروں کی تو خیر بھد اڑی ہی اڑی لیکن وہ خود بھی سیاسی طورپر پس منظر میں چلے گئے ہیں۔میں ان لوگوں کی خوشی کا اندازہ کرسکتا ہوں لیکن یہ خوش ہونے کا مقام نہیں بلکہ تشویشناک بات ہے اور اسے بڑھنے سے پہلے روک لیاجائے تو ملک اور قوم کےلئے بہتر ہوگا۔ قیام پاکستان کے حق میں سب سے پہلے قرارداد سندھ اسمبلی نے منظور کی جس سے قیام پاکستان کی راہ ہموار ہوئی۔ سندھ پاکستان کا خالق صوبہ ہے لیکن ابتدا ہی سے یہاں احساس محرومی کی باتیں ہوتی رہیں۔اسے دیوار سے لگانے کی کوششوں کے ہمیشہ منفی اثرات برآمدہوئے اورصوبے میں وفاق اورپنجاب کے خلاف نفرت کے جذبات کو فروغ ملا۔لیکن جب سے پیپلزپارٹی وجود میں آئی ہے اس نے وفاق کے خلاف سندھ میں ابھرنے والی سازشوں کو ناکام بنایااورہمیشہ وفاق کی سیاست کی جس پر اسے سندھی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے منفی پروپیگنڈے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔اسے پنجاب کے ایجنٹ اور آلہ کار کے طعنے بھی دیئے جاتے رہے مگر پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت بھٹوصاحب سے لے کربلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری تک وفاق پرستی سے پیچھے نہیں ہٹی۔
پیپلزپارٹی ایک وفاقی جماعت تھی جس کا سیاسی مستقر سندھ تھا ۔سندھ ہمیشہ شاکی رہا کہ اسے لاشوں کے تحفے پیش کئے گئے۔ اقتدارجب بھی دیا گیا تو اعتبار نہیں کیا گیا اور ہمیشہ ادھورا اقتدار دیا گیا۔جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے باوجود سندھ کی حب الوطنی پر سوال اٹھتے رہے لیکن پیپلزپارٹی ہمیشہ زخم کھا کر بھی پاکستان اور وفاق کی بات کرتی رہی۔ اس کے اس جذبے کی قدر نہیں کی گئی ¾ اس کے زخموں پر مرہم نہیں رکھا گیا۔2013ءکے انتخابات کے نتائج وفاق کے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں ¾سیاسی مینڈیٹ لسانی اور علاقائی دائروں میں دھکیل دیا گیا ہے۔ ایسے میں الجھنے اور لڑنے کی سیاست ریاست کے وجود کے لئے خطرات پیدا کر سکتی ہے۔دانشمندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ سیاسی ادارے اور قومی ادارے مل کراندرونی اور بیرونی مسائل کے حل کے لئے کام کریں۔غلطیاں غلط فہمیاں پیدا کرتی ہیں اور غلط فہمیوں سے گمبھیرقومی مسائل جنم لیتے ہیں۔نوبت یہاں تک نہیں پہنچنی چاہئے۔وزیردفاع خواجہ آصف کی خطائیں معاف ہو سکتی ہیں تو سابق صدر زرداری کے جوش خطابت کو بھی نظراندازکیا جا سکتا ہے جو کہتے ہیں کہ یہ فوج ان کی اپنی ہے اور اس سے مخاصمت کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔
اسٹیبلشمنٹ اورسابق صدر آصف علی زرداری کے درمیان کشیدگی میرے خیال میں ملک اور قوم کے حق میں نہیں۔ وزیراعظم محمد نوازشریف کو اس اثنامیں بے نیازی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے قومی رہنما کے طورپر بھرپورکرداراداکرنا چاہئے ۔وہ صرف مسلم لیگ کے قائد نہیں ہیں ¾اس ملک کے چیف ایگزیکٹو بھی ہیں ¾ انہیں خود کو وفاق کے رہنما کے طورپر سوچنا چاہئے۔میں وزیراعظم کی پوزیشن سمجھتا ہوں ¾ان کے دائیں بائیں ایسے کئی لوگ موجود ہیں جووفاق کی اہمیت نہیں سمجھتے اور پیپلزپارٹی کو بالعموم اور آصف علی زرداری کو بالخصوص انجام سے دوچار کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی ملک کی ایک اہم سیاسی جماعت ہے اور اس کازوال اس ملک کے سیاسی مستقبل کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم کے لئے مناسب موقع ہے کہ وہ ایک قدم آگے بڑھیں اور ثالثی کا راستہ اختیا ر کریں۔اس سے پہلے کہ یہ چنگاری بھڑک کر الاﺅ کی شکل اختیارکر جائے ¾وزیراعظم اس آگ پر پانی ڈال کر اس کی شدت کو گھٹا سکتے ہیں۔ خدانخواستہ یہ آگ پھیلی تو اس میں وفاق جل کر بھسم ہو سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...