ایک اور تصور جسے پشاور ، چارسدہ ، نوشہرہ اور مردان کے اضلاع اور ان کے قرب و جوار کے علاقوں میں قبول عام کی سند کا درجہ حاصل ہے ، وہ یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کی وجہ سے سیم ا ور تھور کا مسئلہ پیدا ہوگا اور زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوجائے گی جس سے پشاور کی زرخیز وادی بُری طرح متاثر ہوگی۔
پانی کا ہر منصوبہ تہلکہ خیز ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ تنازعات کو جنم دے سکتا ہے اور انجینئرنگ کے حقائق کو سیاسی دلائل کی دُھند میں اوجھل کرسکتا ہے۔ کالاباغ ڈیم بھی ایک ایسا ہی ترقیاتی منصوبہ ہے۔ اس منصوبے سے وابستہ منفی تصورات نے مخصوص جغرافیائی علاقوں میں عام لوگوں کے ذہنوں کو بُری طرح جکڑ رکھا ہے۔ اِسی طرح کا ایک تصور یہ ہے کہ کالاباغ ڈیم کی وجہ سے سیم کا مسئلہ پیدا ہوگا اور پشاور کی وادی میں زرخیز زمین تھور کا شکار ہوجائے گی۔
سیاسی جماعت کی دستاویز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ”ایک عام آدمی بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ اگر پانی کے راستے میں کوئی رکاوٹ آئے تو ا س کی رفتار کم پڑ جاتی ہے۔ جب اس طرح کی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے تو دریا اپنی گزرگاہ میں زیادہ مٹّی جمع کرتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ دریائی گزرگاہ کی سطح بلند ہوتی جاتی ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ بین الاقوامی معیار کے مشاورتی اداروں اور دُنیا بھر کے معروف ماہرین نے کالاباغ ڈیم کی پراجیکٹ پلاننگ رپورٹس کا از سرِ نو جائزہ لیا ہے۔ اِن تحقیقی اور جائزہ رپورٹس کے مطابق کالاباغ ڈیم کے آبی ذخیرے میںجب پانی کی سطح 915فٹ کی بلندی پر ہوگی تو بالائی جانب اس کا پھیلاﺅ نوشہرہ سے زیریں جانب 10میل پہلے تک ہوگا۔ اس حوالے سے تفصیلاً تحقیقی مطالعات کئے گئے ہیں اور ماڈل سٹڈیز نے بھی اِن مطالعات کے نتائج کی توثیق کی ہے کہ ایسی صورت میں پشاور کی وادی سے پانی کا دریائے کابل میں نکاس بلا رکاوٹ جاری رہے گا جبکہ کالاباغ ڈیم کا پانی کی نکاسی کے نظام پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑے گا۔
علاوہ ازیں مردان ، پبّی اور صوابی کے علاقوں میں زمین کی سب سے نچلی سطح سمندر کی سطح سے بالترتیب 970، 960اور ایک ہزار فٹ کی بلندی پر ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں کالاباغ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی بلند ترین سطح 915فٹ ہے۔ (واپڈا نے خیبرپختونخوا کے تحفظات کو دور کرنے کے لئے پی سی II- کی پراجیکٹ دستاویز میں ضروری تبدیلیاں کرتے ہوئے ڈیم کی بلندی 925فٹ سے کم کرکے 915فٹ کردی تھی)آبی ذخیرے میں پانی کی یہ سطح بھی پورے سال کے دوران ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں میں صرف تین سے چار ہفتے برقرار رہے گی ۔ بعد ازاں آبی ذخیرے میں پانی کی سطح گر جائے گی کیونکہ ربیع کی فصلوں اور بجلی کی پیداوار کے لئے پانی ڈیم سے خارج کیا جائے گا۔ بالآخر جون کے اوائل میں پانی کی سطح 825فٹ کے ڈیڈ لیول تک پہنچ جائے گی۔ آبی ذخیرے کے آپریشن کے مذکورہ طریقہ کار کی وجہ سے پانی کے نکاس کا نظام کسی رکاوٹ کا شکار نہیں ہوگا اور نہ ہی مردان ، پبّی اور صوابی کے علاقوں میں سیم اور تھور کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ کالاباغ ڈیم کی رپورٹ پر نظر ثانی کرنےو الے اداروں اور ماہرین نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ مردان سکارپ کے بڑے نالوں کے اخراجی دھانے کالاباغ ڈیم میں پانی کی انتہائی سطح یعنی 915فٹ کی نسبت زیادہ اونچائی پر واقع ہیں جبکہ دریائے کابل اور کلپانی خواڑ (دریا) میں بھی پانی الٹی سمت نہیں چڑھے گا۔ نکاسی آب کے لئے یہ سب کسی رکاوٹ کے بغیر اپنا کام سرانجام دیتے رہیں گے۔ حصّارہ ، مرڈارا اور پلاٹونامی نکاسی آب کے نالوں کے اخراجی دھانوں کی بلندی 937.5فٹ سے 925فٹ کی بلندی تک ہے اور یہ سب کالاباغ ڈیم میں پانی کی انتہائی بلند سطح یعنی 915فٹ سے زیادہ اونچائی پر ہیں ۔ گویا دریائے کابل کے دائیں یا بائیں کنارے سے پانی کے نکاس میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوگا۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ تربیلا کا آبی ذخیرہ وادی¿ پشاور سے 600فٹ بلند ہے اور اس کی وجہ سے گزشتہ40سال کے دوران علاقے میں سیم کا مسئلہ سامنے نہیں آیا تو پھر کس طرح کالاباغ ڈیم کا آبی ذخیرہ ، جو عمومی طور پر نوشہرہ کے مقابلے میں 25فٹ کم بلندی پر ہوگا ، علاقے میں سیم کا مسئلہ بن سکتا ہے۔ یہ بات جاننے کے لئے انجینئرنگ کے علم کی ضرورت نہیں ہے کہ پانی کا رساﺅ ، پانی کی سطح سے زیریں جانب ہوتا ہے نہ کہ بالائی جانب ۔
پشاور کی وادی پر کالا باغ کے منفی اثرات سے متعلق موجودہ تصوّر موجودہ خیبر پختونخوا اور اُس وقت کے صوبہ سرحد کی حکومت کے مو¿قف سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ کالاباغ ڈیم منصوبے کے بارے میں تاثر وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی تبدیلیوں سے گزرا ہے۔ پہلے پہل کالاباغ ڈیم کے بارے میں جوش سے مامور یہ جذبہ پایا جاتا تھا کہ اِس منصوبے کے دائیں جانب آبپاشی کے لئے نہر نکالنے کی زبردست گنجائش موجود ہے جس سے بروقت صوبے میں وسیع اراضی سیراب ہوگی ۔ یہ جوش اُس وقت ماند پڑ گیا جب نہر کے تکنیکی اعتبار سے قابل عمل ہونے پر سوالات اٹھائے گئے ۔
یہ بات اس وقت رونما ہوئی جب کالاباغ ڈیم کنسلٹنٹس نے اپنی پراجیکٹ رپورٹ میں ڈیم سے نکلنے والی نہروں کے تکنیکی اور اقتصادی طور پر قابل عمل ہونے کے بارے میں سوالات کھڑے کردیئے اور واپڈا نے اُن کے اخذ کردہ نتائج سے اتفاق کر لیا۔لہٰذا واپڈا کی جانب سے 1988ءمیں اس منصوبے کا جو ڈیزائن فائنل کیا گیا اُس میں ڈیم سے نہر یں نکالنے کی گنجائش موجود نہیں ہے ۔
مذکورہ پس منظر کے ساتھ1989ءمیں کالاباغ ڈیم کا پی سی II- سی ڈی ڈبلیو پی /ایکنک کے اجلاس میں زیر بحث لایا گیا ۔ اس پی سی II- کی مشروط منظوری دی گئی جبکہ وزارت ِ پانی و بجلی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ خیبر پختونخوا اور سندھ کی حکومتوں کی جانب سے اُٹھائے گئے اعتراضات کے بارے میں رپوٹ پیش کرے۔ خیبر پختونخوا کی حکومت اِس بات کی یقین دہانی چاہتی تھی کہ ڈیم کی اونچائی میں مجوزّہ کمی کی وجہ سے سیلاب کا خطرہ دور ہوجائے گا ، زیر زمین پانی کی سطح بلند نہیں ہوگی اور پانی کے قدرتی نکاس پر بُرے اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ چنانچہ وزارت ِ پانی و بجلی نے اس وقت کے چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) زاہد علی اکبر کی سربراہی میں ایک ٹیکنیکل کمیٹی قائم کی۔ مارچ اور دسمبر 1990 ءمیں اس کمیٹی کے دو اجلاس ہوئے۔ محمد امین خٹک سیکرٹری آبپاشی و برقیات ، ایچ ڈی بنگش اور فقیر احمد پراچہ سیکرٹری آبپاشی و برقیات (وہ جو دوسرے اجلاس میں امین خٹک کی جگہ شریک ہوئے) نے اجلاس میں اس وقت کی صوبہ سرحد کی نمائندگی کی۔ صوبہ سرحد کے نمائندگان نے یہ مو¿قف اختیار کیا کہ مزید تحقیقی مطالعات کے باعث پہلے سے کئے گئے مطالعات کے نتائج پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور اُن کی حکومت ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے آبادی ، اراضی اور دریا کی گزرگاہ میں مٹی بھرنے جیسے منفی اثرات کے بارے میں جانتی ہے۔ صوبہ سرحد کے نمائندگان ، جو غالباً ان امور پر از خود فیصلہ کرنے سے پہلو تہی کررہے تھے ، اُنہوں نے ایک بیان جاری کیا جس کا ذکر اجلاس کی کارروائی میں اِن الفاظ میں موجود ہے”اِس (کالاباغ ڈیم) منصوبے پر فیصلہ صوبائی حکومت نے کرنا ہے کہ (یہاں لفظ ”کہ“ غالباً آیا کہ“ کے طور پر استعمال ہوا ہے) وہ اِن قربانیوں کے باوجود ڈیم تعمیر کرنا چاہیں گے یا نہیں“ اُنہیں کالاباغ ڈیم سے نہ توآبپاشی کے لئے پانی مہیا ہونا تھا اور نہ ہی سیلاب سے بچاﺅ میں مدد ملنی تھی۔ لیکن اس منصوبے کے نتیجے میں صوبے کی اراضی زیر آب آنا تھی اور لوگوں کو نقل مکانی کرنا تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ پن بجلی کے خالص منافع کا فائدہ صرف پنجاب کو حاصل ہونا تھا ۔ اردو کا محاورہ اِس صورت ِ حال کی درست عکاّسی کرتا ہے ”دُکھ سہیں بی فاختہ اور کوّے انڈے کھائیں“۔
اُس وقت کی صوبہ سرحد کی حکومت کے نمائندگان کے اِن تاثرات کے بعد چیئرمین واپڈا نے اپنی رپورٹ وزارت ِ پانی و بجلی کو ارسال کردی کہ مذکورہ معاملات پر مزید تحقیقی مطالعات کرانا ، اِس کمیٹی کے دائرہ اختیارت میں نہیں آئے ، لہٰذا یہ معاملہ ختم سمجھا جائے۔ بعد ازاں خیبر پختونخوا کی حکومت کالاباغ ڈیم کے تکنیکی طور پر قابل عمل ہونے کو چیلنج کرتی رہی۔