اپنے مال کو پاک کرنے کے لیے اللہ تعالی نے زکوٰتہ کا سسٹم رکھا ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ زکوتہ کسے دی جائے ؟ اس کامستحق کون ہے ؟اللہ تعالی نے قرآن مجید سورت توبہ میں زکوتہ کے 8مصارف بیان کیے ہیں ”زکوٰتہ تو صرف ان لوگوں کے لئے جو محتاج اور نرے نادار (مسکین) ہوں اور جو اس کی تحصیل پر مقرر ہیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے (اسلام کی طرف مائل کرنا ہو) اور (مملوکوں کی) گردنیں آزاد کرنے میں اور قرض داروں کو اور اللہ کی راہ اور مسافر کو، یہ ٹھہرایا ہوا (مقرر شدہ) ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے“۔اس آیت مبارکہ میں آٹھ مصارفین کا ذکر موجود ہے۔فقرائ،مساکین، عاملین زکوٰتہ (زکوٰتہ اکٹھی کرنے والے)، مو¿لف القلوب،غلام کی آزادی، مقروض،فی سبیل اللہ،مسافر،قرآن کریم میں زکوٰتہ کے یہ آٹھ مصارف ذکر ہوئے ہیں ان میں سے کسی بھی مصرف میں زکوٰتہ دینے سے ادائیگی ہوجائے گی اور دینے والا دینی فریضہ سے سبکدوش ہوجائے گا۔ خواہ ایک پر صرف کرے خواہ دو پر خواہ زیادہ پر یہ اس کے اپنے اختیار میں ہے۔زکوٰتہ کا پہلا اور دوسرا مصرف، فقیرومسکین”فقیر اور مسکین دونوں ہی مالی ضروریات کے لئے دوسروں کے مالی تعاون کے محتاج ہیں دونوں کو زکوٰتہ دی جاسکتی ہے فقیر سے بڑھ کر مسکین خستہ حال ہوتا ہے فقیر تنگدست ہوتا ہے تہی دست نہیں ہوتا مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ کچھ مال ہوتا ہے مگر ضروریات زندگی اس سے پوری نہیں ہوتیں“ تیسرا مصرف والعاملین علیہاوہ لوگ جو زکوٰتہ وعشر جمع کرنے پر مامور ہوں، ان سب کو زکوٰتہ فنڈ سے اجرت یا تنخواہ دی جائے گی خواہ امیر ہوں خواہ غریب،آج کل حکومت زبردستی زکوٰتہ بینکوں سے کاٹ لیتی ہے اور افسر شاہی شیر مادر سمجھ کر اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ہمراہ ڈکار لئے بغیر سب کچھ ہڑپ کرجاتی ہے۔ اسی لئے حقیقت شناس لوگ بینکوں پر بھروسہ نہیں کرتے اپنے طور پر زکوٰتہ کی رقم اس کے مصارف میں خرچ کرتے ہیں۔ یہ ہی احسن طریقہ ہے۔مال دو طرح کا ہے ایک ظاہری جیسے مویشی غلہ مال تجارت وغیرہ اس کی زکوٰتہ اسلامی حکومت وصول کرتی ہے۔ دوسرا باطنی یا پوشیدہ مال جیسے زیورات یا نقدی اس کی زکوٰتہ ہر شخص خود ادا کرتا ہے۔فی زمانہ چونکہ زکوٰتہ وعشر کا نظام حکومت کی طرف سے شرعی اصول کے مطابق نہیں اور چونکہ اس سے ضرورت مندوں، محتاجوں، مسکینوں کی کفالت عامہ کی ذمہ داری بھی حکومت نہیں لیتی نہ اس کے شرعی مصارف میں صرف کرتی ہے۔ بلکہ دوسرے شعبوں کی طرح اس شعبہ میں بھی لوٹ مار اور افسر شاہی کے اللوں تللوں کی بھرمار ہے۔ نہ وصولی میں شرعی اصولوں کی پابندی ہے نہ صرف کرنے میں اس لئے محتاط مسلمان اپنے طور پر اپنے مالوں کی زکوٰتہ مناسب مصارف میں خود صرف کرتے ہیں یہ بالکل جائز ہے۔ حالانکہ زکوٰتہ امراءسے لیکر فقراءپر صرف کرنے کے لئے فرض کی گئی ہے تاکہ غریب ومسکین حاجت مندوں کی باعزت کفالت ہو۔زکوٰتہ وعشر کاچوتھا مصرف مو¿لفتہ القلوب ہیں یعنی وہ لوگ جن کی تالیف قلب مقصود ہے تالیف قلب کا مطلب ہے دل موہ لینا، مائل کرنا، مانوس کرنا۔لیکن حضرت عمر ؓ کے دور میں یہ سلسلہ ختم کر دیا گیا تھا۔پانچواں مصرف۔۔۔ وفی الرقاب گردنیں چھڑانے میں اسلام سے پہلے دنیا کے اکثر ممالک میں غلامی کا دور دورہ تھا، کمزور، نادار، اور پسماندہ انسانوں کو طاقتور لوگ اپنا غلام بنالیتے تھے۔ یونہی لڑائیوں اور جنگوں میں غالب قوم، مغلوب قوم کو اپنا غلام بناکر ان کے گھر بار زمین جائیداد یہاں تک کہ ان کی جانوں کی مالک بن جاتی تھی اسلام نے انسانی غلامی کو جرم قراردیا جو صدیوں سے نسلاً بعد نسل غلام تھے ان کو قانوناً واخلاقاً کئی طریقوں سے آزاد کرنے کا دروازہ کھول دیا۔ چھٹا مصرف۔۔۔ الغارمین :”والغارمین“ اور قرضداروں کو یعنی مال زکوٰتہ سے قرض داروں کے قرض بھی ادا کئے جاسکتے ہیں۔ساتواں مصرف۔۔۔ وفی سبیل اللہ :”اور اللہ کے راستے میں“آٹھواں مصرف۔۔۔ ”ابن سبیل“ مسافر :زکوٰتہ کا آٹھواں مصرف مسافر ہے۔ خواہ گھر میں مالدار ہو مگر سفر میں تنگدست ہوجائے اور مالی تعاون کا محتاج ہو، تو زکوٰتہ سے اس کی مالی مدد کی جائے گی ۔ لیکن ہمیں کوشش یہ کرنی چاہیے کہ سب سے پہلے اپنے عزیز واقارب کی دیکھ بھا ل کی جائے ۔ معاشرے میں نظر انداز طبقات کی دل جوئی کی جائے پسماندہ علاقوں کے لوگ ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے ، صلہ رحمی کی بنیاد رکھی جائے ، زکوتہ صرف ایک فرد کی کفالت کا نام نہیں ہے بلکہ یہ معاشرے میں لوگوں کے مابین ہمددری ہے آج کل بہت سے ادارے زکوة لے رہے ہیں ، ہمیں زکوتہ دیتے وقت ان کے مصرف کو دیکھنا چاہے کئی اداروں نے بنکوں میں پیسہ رکھا ہوا ہے لاکرز بنا رکھے ہیں ۔کئی نے بلڈنگیں بنا رکھی ہیں بعض ادارے اس پیسے سے مشینری خریدتے ہیں حالانکہ یہ زکوتہ کے مصارف ہی نہیں ہیں ۔اس لیے عوام کو قرآن وسنت کی رو سے مسائل دیکھ کر زکوتہ دینی چاہیے تاکہ انکی زکوتہ ادا بھی ہو ،زکوتہ دینے سے پہلے علماءاور مفتیان عظام سے مسائل پوچھ لیں تاکہ زکوتہ ادا بھی ہو جائے۔
”بنام وفاقی وزیر خزانہ “
حکومت پاکستان نے پہلے اعلان کی تھا کہ جس ادارے کی 5کروڑ سے زیادہ آمدنی ہے اس کا آڈٹ کسی تھرڈ پارٹی سے کروایا جائے گا لیکن ابھی تک اس پر عمل نہیں ہوا اس وقت بہت سارے ادارے ایسے ہیں جن کی آمدنی بہت زیادہ ہے حکومت کو اس کا علم ہی نہیں کہ یہ پیسہ کہاں پہ خرچ ہو رہا ہے ،بہت سارے ادارے صدقہ زکوتہ لیتے ہیں لیکن اس کے بعد پتہ ہی نہیں ہوتا کہ پیسہ کہاں پہ خرچ کیا جا رہا ہے اس لیے وفاقی وزیر خزانہ اپنے کہے ہوئے کو عملی جامہ پہنائیں اور ان تمام اداروں کے آڈٹ کا حکم دیں جن کی آمدنی 5کروڑ سے زیادہ ہو۔