شامی صاحب کا سوال اور میرا ”ہاسا“

”ہاسا نکلے ہی جا رہا ہے“۔ یہ معروف خاتون ڈرامہ نگار آمنہ مفتی کی ایک تحریر کا عنوان ہے اور میرا حال احوال نامہ بھی۔ پاکستان عوامی تحریک والوں نے اعلان کیا کہ جون کی 17 بروز جمعة المبارک، عشاءسے سحری تک مال روڈ لاہور دھرنا ہو گا۔ سانحہ ماڈل ٹا¶ن کے دو سال پورے ہونے پر یہ احتجاج کیا جا رہا ہے۔ 14 بے گناہوں کے خون کا معاملہ ہے۔ ساحر لدھیانوی نے پاکستان ہندوستان، دونوں ملکوں کی سیاسی روداد لکھ دی ہے۔
بہت دنوں سے یہ ہے مشغلہ سیاست کا
کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہو جائیں
دھرنے میں خورشید شاہ ہونگے۔ شاہ محمود قریشی ہونگے۔ شیخ رشید ہونگے۔ خوب میلہ لگے گا۔ میاں محمود الرشید اپنی دو گھنٹے اور پچاس منٹ والی پنجاب اسمبلی میں کی گئی تقریر پر نازاں پھرتے ہیں۔ ادھر ہمارے شیخ الاسلام کی ہر تقریر کا کم از کم دورانیہ اس سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ اس دھرنے کی حکومت وقت کو اتنی تکلیف نہیں جتنی پریشانی میں مال روڈ کے تاجر مبتلا ہیں۔ وہ ”آف شور بابا“ سے کہہ رہے ہیں کہ یہ احتجاج کہیں اور کر لیں۔ ہمارے کاروبار کو تباہ نہ کریں۔ مال روڈ کے تاجروں کی تنظیم کے جنرل سیکرٹری نعیم میر کی سنیے: انتظامیہ بے بس ہے۔ عدلیہ کو مانا نہیں جا رہا۔ میڈیا کو چاہئے کہ اس دھرنے کی کوریج نہ کرے۔ سارا معاملہ کوریج کا ہوتا ہے۔ ہم نے کئی مقررین کو کیمرہ مین کے سامنے دوبارہ تقریر کا پوز بنا کر کھڑے ہوتے دیکھا ہے۔ ان بیچاروں کی تقریریں کیمرہ مین کے آنے سے پہلے ہی ختم ہو گئی تھیں۔ اب آ گئی ہاسا نکلنے والی بات۔ یہ تاجر رہنما قانون کی بات کر رہے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز نے 2011ءمیں تاجروں کی رٹ پر فیصلہ کرتے ہوئے مال روڈ لاہور پر جلسے جلوسوں کی ممانعت کر دی تھی۔ انتظامیہ کیلئے جلسے جلوس روکنے سے امن و امان قائم رکھنا زیادہ مقدم ہوتا ہے۔ سو عدالتی فیصلہ کے باوجود مال روڈ پر جلسے ہوتے رہے، جلوس نکلتے رہے، مظاہرین گھومتے پھرتے رہے۔ تاجر تنظیموں کے پاس کونسی فنڈز کی کمی ہوتی ہے۔ انہوں نے ایک مہنگا سا وکیل کیا اور ہائیکورٹ پہنچ گئے۔ اب وہ جسٹس منصور علی شاہ کی عدالت میں یہ درخواست لیکر پہنچے ہیں کہ ان سے عدالتوں کی توہین نہیں دیکھی جا رہی۔ جلوس نکالنے والے اور احتجاجی مظاہرے کرنے والے، توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ عدالتوں میں ایسی متفرق درخواستوں کیلئے الماریاں بھی بہت ہیں۔ پھر ان الماریوں میں درازیں بھی بے شمار ہیں۔ وہ انہیں قدرے فراغت میسر آنے پر ایک نظر دیکھ بھی لیتے ہیں۔ وہی منصور آفاق کے سے دھیمے، پیارے انداز میں:
رات کھولے تھے کچھ پرانے خط
پھر محبت دراز میں رکھ دی
اب جسٹس منصور علی شاہ سے اس عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کروانے کی استدعا ہو رہی ہے۔ ادھر کوئی قانون کا ذکر تبھی کرتا ہے، جب انہیں قانون اپنی حمایت میں کھڑا دکھائی دے۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ لوڈشیڈنگ میں مبتلا اس ملک میں کوئی قانون تاجروں کو دن کی روشنی میں اپنا کاروبار کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ سرکا ر نے پہلے پہل بہت کوشش کی۔ اب وہ اس مسئلے پر خاموشی اختیار کر چکی ہے۔ پچھے ہی دنوں گجرات جی ٹی روڈ پر فرنیچر ایک معروف دکان پر ایف بی آر کے ریڈ نے میدان جنگ کا سماں پیدا کر دیا۔ مالکان نے پوری مزاحمت کی۔ پھر یوں ہوا کہ ٹیکس کے محکمہ والے پولیس تھانہ میں کار سرکار میں مداخلت، افسران کو حبس بیجا میں رکھنے، زدوکوب کرنے، سرکاری ریکارڈ جلانے اور سرکاری گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی شکایت لے کر گئے ہیں۔ محکمہ ابتدائی طور پر انہیں پچاس کروڑ روپے کی ٹیکس چوری کا مرتکب سمجھتا ہے یہ ان کا سرسری سا اندازہ ہے ورنہ ٹیکس چوری کی واردات اور بھی لمبی ہے۔ دوسری طرف تمام تاجر تنظیمیں اکٹھی ہو کر احتجاج کر رہی ہیں۔ وہ تاجروں کو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی قرار دے رہی ہیں۔ اب شاید تاجر چاہتے ہیں کہ بھوکی ننگی قوم اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر اپنی اس ریڑھ کی ہڈی کی حفاظت کر لے۔ تاجر تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ وہ سرکار کو دوبارہ ایسی ”بدمعاشی“ ہرگز نہیں کرنے دیں گے۔ اگر آپ یہ بدمعاشی کا لفظ سن کر بھی سنجیدہ ہیں اور آپ کا ”ہاسا“ نہیں نکلا تو پھر آپ کا تعلق بھی یقیناً تاجر برادری سے ہو گا۔ تاجر ہماری قومی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں یا نہیں۔ یہ ہماری سیاسی جماعتوں کی ریڑھ کی ہڈی ضرور ہیں۔ ن لیگ کے بارے یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ یہ تاجروں اور صنعتکاروں کی پشت پر کھڑی ہے۔ آپ ان کے منہ سے کبھی مزدوروں اور کسانوں کا ذکر نہیں سنیں گے۔ تبدیلی کے سفر پر چلتے چلتے ہمارے عمران خان کو بھی اس طبقے کی انتخابی طاقت سمجھ میں آ گئی ہے۔ انہوں نے اپنے لئے تاجر نواز رول چن لیا ہے۔ پاکستان میں اقتدار کا شارٹ کٹ راستہ بازاروں اور منڈیوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ عمران خان تاجروں کی صفائی میں یہ بات کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی ٹیکس دینے سے بھاگنے کی وجہ حکومتی بددیانتی ہے۔ زیادہ صاف لفظوں میں آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ ٹیکس سیاستدانوں کی کرپشن کے باعث نہیں دیتے ہیں۔ (عمران خان) حکومت میں آ کر ان سے دوگنا ٹیکس وصول کر کے دکھاﺅںگا۔ میری دیانتداری انہیں پورا ٹیکس دینے پر مجبور کر دے گی۔ جناب مجیب الرحمان شامی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کی اس بات میں جزوی صداقت ہو سکتی ہے۔ لیکن کلی نہیں۔ انہیں خان صاحب پر اعتراض ہے کہ انہیں ایک قومی رہنما کے طور پر ٹیکس خوروںکی بہانہ بازیوں کو جواز مہیا نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے ایک سوال اٹھایا ہے کہ زرعی انکم ٹیکس ایک خالصتاً صوبائی معاملہ ہے۔ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ ان تین سالوں میں زرعی ٹیکس کی وصولی میں کس قدر اضافہ ہوا ہے؟ اور بھی بہت سے ٹیکس ہیں جنہیں صوبائی حکومت ہی نافذ اور وصول کرتی ہے۔ تحریک انصاف پر اس اہم سوال کا جواب واجب ہے۔ سچ یہی ہے کہ ٹیکس دیتا کوئی نہیں، ٹیکس وصول کرنا پڑتا ہے۔ میرے دوست کالم نگار مظہر برلاس بنی غالہ میں خاں صاحب کے پڑوس میں رہتے ہیں۔ ان کی خان صاحب سے قربت بھی بہت ہے۔ وہ خان صاحب کو بتائیں کہ حقیقی تبدیلی کا راستہ روشن جگمگاتے بازاروں کی بجائے مزدوروں، کسانوں کی کچی تاریک گلیوں سے ہو کر جاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن