جمہوریت کا طورخم گیٹ پہلے بننا چاہیے!

الزام لگانا بہت آسان ہوتا ہے لیکن جھوٹے الزام کو ثابت کرنا انتہائی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جھوٹ کے پاو¿ں نہیں ہوتے اور یوں جھوٹ زیادہ دیر تک اور زیادہ دُور تک چل نہیں پاتا۔ افغانستان میں جاری سیاسی و عسکری کشمکش بھی بعین اِسی صورتحال سے دو چار ہے، جہاں کوہساروں کو جنگ کی بھٹی میں سلگتے مجموعی طور پر چار دہائیاں بیت چکی ہیں جبکہ نائن الیون کے بہانے امریکہ کے خطے میں آنے کے بعد ڈیڑھ دہائی گزر چکی ہے لیکن جن واضح اور بیانیہ ”مقاصد“ کیلئے امریکہ افغانستان میں آیا تھا وہ تو پورے نہیں ہوئے البتہ خطے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ضرور ہوگئی ہے اوردہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ پہاڑوں اور غاروں سے نکل کر جنوبی ایشیاءبالخصوص افغانستان اور پاکستان کے شہروں، گلیوں اور بازاروں میں داخل ہوچکی ہے۔ اِس جنگ میں عبادتگاہیں محفوظ رہیں نہ ہی تعلیمی اداروں کو کوئی استثنیٰ حاصل ہے۔ یہ جنگ شروع ہونے اور اِسے تباہ کن بنائے جانے سے پہلے بھی اِن خدشات کا اظہار کیا گیا تھا کہ مغربی طاقتیں اسلامی دنیا میں جو آگ لگانے جارہی ہیں، اُس کے شعلے ایک دنیا خود اُنہیں بھی جلاڈالیں گے۔ اورلینڈو کے واقعہ سمیت عالم مغرب میں گزشتہ دو برسوں میں ہونے والے اِسی طرح کے واقعات اِس بات کا ثبوت ہیں کہ جنگ رکوانے کیلئے پندرہ برس پہلے مغربی ممالک میں عوامی سطح پر ہونے والے ملین مارچ کے شرکاءکے خدشات کچھ ایسے غلط بھی نہ تھے کیونکہ افغانستان میں مسلسل ہزیمت سے دوچار نیٹو افواج جنوبی ایشیا میں امن قائم کراسکیں ہیں اور نہ ہی اپنے ممالک تک اِس جنگ کی چنگاریاں پہنچنے سے روک سکیں ہیں۔
خطے میں جنگ چھیڑنے کو غلطی تسلیم کرنے اور افغانستان میں جاری جنگی صورتحال میں اپنی مسلسل ناکامیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے پہلے امریکی اتحادی افواج الزام لگاتی تھیں کہ پاکستان سے آنے والے (طالبان اور القاعدہ کے) دہشتگرد افغانستان میں اُن کے خلاف عسکری کارروائیاں کرتے ہیں، اور اب یہی وطیرہ افغان حکومت اور افغان فورسز نے اپنالیا ہے، لیکن دونوں ہی ان الزامات کو کبھی ثابت نہیں کرسکے۔ پاکستان نے اِن الزامات کو دھونے کی بہت کوشش کی ہے لیکن بین الاقوامی میڈیا اور امریکی اتحادیوں نے یہ منفی اور زہریلا پراپیگنڈا پوری شدومد سے جاری رکھا ہوا ہے۔ دوسری جانب دراندازی کے منفی اور جھوٹے پراپیگنڈے کے توڑ کیلئے پاکستان نے ہمیشہ بارڈر مینجمنٹ سسٹم کو بہتر اور موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے لیکن جیسے ہی سرحد پار آنے جانے کو کسی نظم میں لانے کیلئے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے اور مختلف مقامات پرکراسنگ چیک پوائنٹس بنانے کی جانب پیشرفت ہوئی تو افغانستان اور امریکہ کی جانب سے اس کی ناصرف مخالفت شروع ہوگئی بلکہ سرحد پر افغان فورسز کی جانب سے گولہ باری کے واقعات بھی شروع کردیے گئے، جس میں پاک فوج کے ایک جری اور بہادر افسر میجر علی جواد چنگیزی شہید اور کئی سیکورٹی اہلکارڈ زخمی بھی ہوگئے، لیکن افغانستان کو اس بھول میں بالکل بھی نہیں رہنا چاہیے کہ اگر وہ پاکستان پر حملہ کرے گا تو جواب میں اُس پر پھول برسائے جائیں گے۔ پاکستان کا ہمیشہ سے ہی موقف رہا ہے کہ ”روزانہ چالیس سے پچاس ہزار افراد پاک افغان سرحد پر کسی رکاوٹ یا پوچھ گچھ کے بغیر آ جا رہے ہیں اور اُن میں ہر طرح کے لوگ شامل ہوتے ہیں، اس لیے جب تک افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر ”بارڈر مینجمنٹ“ کا کوئی نظام قائم نہیں ہو جاتا،اس وقت تک دہشت گردی، انتہا پسندی اور سمگلنگ جیسے مسائل پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے، اس لیے سرحد پر دونوں جانب سے آمدورفت دستاویزات کی مدد سے ہونی چاہیے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کون آجارہا ہے“۔ اس مقصد کیلئے طور خم کے مقام پر داخلی گیٹ کی تعمیر کے معاملے پر بھی یہی کچھ ہواکہ اس کی پذیرائی کرنے کی بجائے افغانستان اور خطے میں اپنا کھیل کھیلنے والی مذموم قوتوں کی جانب سے طورخم گیٹ کے خلاف پراپیگنڈا شروع کردیا گیا۔ دراصل پاک افغان سرحد پر طور خم گیٹ کی تعمیر پر افغانستان سمیت علاقے میں متحرک مختلف ممالک کی ایجنسیوں کو کافی تکلیف ہے اور وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے منفی پراپیگنڈا کرانے میں بھی مصروف ہیں کہ طور خم گیٹ کی تعمیر سے کسی پاک افغان دو طرفہ معاہدے کی خلاف ورزی ہورہی ہے، حالانکہ حقیقت اس کے سراسر برعکس ہے کہ طورخم پرگیٹ کی تعمیر سے کسی دو طرفہ معاہدے کی خلاف ورزی ہورہی ہے نہ ہی کسی بین الاقوامی قانون کے منافی کام ہورہا ہے۔
عجیب بات ہے کہ ایک جانب بارڈر مینجمنٹ سسٹم کو بہتر بنانے کیلئے افغانستان کو طورخم گیٹ پر اعتراض ہے تو دوسری جانب پاکستان کے اندر اپوزیشن کی بعض جماعتوں کو بھی کچھ ایسے ہی اعتراضات ہیں۔ مثال کے طور پر پانامہ لیکس کے بعد ملک میں یکساں اور شفاف نظام اور بے لاگ احتساب کا موقع آیا جو درحقیقت اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے کی خواہش رکھنے والوں کو ایک چھلنی سے گزارنے کا بہترین موقع تھا تاکہ آئندہ کیلئے کوئی کرپٹ شخص اقتدار کے ایوانوں تک نہ پہنچ سکے، لیکن وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف اپوزیشن کے عناد نے یہ موقع بھی تقریبا ضایع کردیا ہے اور یہ کوشش بھی مغربی ممالک کے پاکستان کے خلاف الزامات کی طرح وہی لوگ کررہے ہیں جو اس سے پہلے احتساب کے سب سے بڑے داعی بنے بیٹھے تھے،
قارئین کرام!! پاک افغان سرحد پر طورخم گیٹ کی مخالفت کا مطلب یہی ہے کہ دہشتگرد اپنی مرضی سے دراندازی کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوتے رہیں اور پاکستانی شہروں کا امن تہہ و بالا کرنے کیلئے خودکش حملے اور بم دھماکے کرتے رہیں۔ اِسی طرح کسی ایک شخصیت کو ہدف بناکر باقی کو احتساب سے بچانے والے بھی دراصل یہی چاہتے ہیں کہ اِس ملک میں جمہوری کلچر پروان نہ چڑھے اور جمہوریت میں دراندازی ہوتی رہے۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ پاک افغان سرحد ہو یا پاکستان میں جمہوری نظام ہو، دونوں کے اندر داخل ہونے کیلئے طورخم گیٹ ضرور بننے چاہئیں۔ جب یہ طورخم گیٹ بن جائیں گے تو عسکریت پسندی اور سیاسی دونوں قسم کی دہشت گردی کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ ممکن ہو سکے تو جمہوریت کا طورخم گیٹ پہلے بننا چاہیے!

نازیہ مصطفٰی

ای پیپر دی نیشن