مشیر خارجہ ’’ سر تاج عزیز ‘‘ نے کہا ہے کہ پاکستان بھارت کی بہ نسبت ’’ نیو کلیئر سپلائر گروپ ‘‘ رکنیت کا زیادہ اہل ہے ۔ کیونکہ یہ ساری دنیا پر واضح ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم انتہائی مربوط اور محفوظ ہے جبکہ ماضی قریب میں بھارت سے ایٹمی مواد چودی ہونے کے ایک سے زائد واقعات ہو چکے ہیں ۔ اس صورتحال کاجائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ اگر میرٹ پر پاک بھارت ٹریک ریکارڑ کا موازنہ کیا جائے تو NPT اور CTBT پر دستخط نہ کرنے والے ممالک میں پاکستان بھارت کے مقابلے میں NSG رکنیت حاصل کرنے کی کسوٹی پر نسبتاً زیادہ پورااترتا ہے ۔ کیونکہ ستمبر 1972 میں ’’ میکسیکو‘‘ میں سولہویں یو این اٹامک انرجی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پہلی بار پاکستان نے جنوبی ایشیاء کو جوہری اسلحے سے پاک قرار دینے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ جس طرح لاطینی امریکہ کو’’ نیوکلیئر ویپن فری زون ‘‘ قرار دینے کی بابت ایک معاہدہ ’’ TLATELOLCO TREATY ‘‘ ( یہ معاہدہ 14 فروری 1967 کو ہوا جس کے تحت لاطینی امریکہ میں جوہری ہتھیار ممنوعہ قرار پائے ) ہے ۔ اسی طرز پر جنوبی ایشیاء کے ضمن میں بھی کوئی معاہدہ طے پانا چاہیے ۔
اس کے کچھ عرصے بعد بھارت نے 18 مئی 1974 کو ایٹمی تجربہ کیا جسے بھارتی سائنسدانوں نے ’’ Smiling Buddha’’ کا نام دیا جبکہ انڈین آرمی نے اس ضمن میں آپریشن ’’ ہیپی کرشنا ‘‘ کا کوڈ استعمال کیا۔ دوسری جانب بھارتی وزارتِ خارجہ نے اسے ’’ پوکھرن ون ‘‘ کہا کیونکہ راجستھان میں جیسلمیر کے مقام ’’ پوکھرن ‘‘ میں یہ ایٹمی تجربہ کیا گیا ۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 29 ویں اجلاس میں 28 اکتوبر 1974 کو پاکستان نے ایک باقاعدہ قرار داد پیش کی ۔ جس میں مطالبہ کیا گیا کہ یو این سیکرٹری جنرل سائوتھ ایشیاء کو’’ نیوکلیئر ویپن فری زون ‘‘ قرار دینے کے حوالے سے متعلقہ ممالک کا اجلاس طلب کریں ۔ جواب میں بھارت نے تعمیری رویہ اختیار کرنے کی بجائے اسی اجلاس میں اپنی جانب سے قرار داد پیش کی جس میں کہا گیا کہ صرف سائوتھ ایشیاء کی بجائے خطے کے سبھی ممالک کو اس دائرہ کار میں لایا جائے ۔ در اصل اس بھارتی موقف کا مقصد پاکستان کی قرار داد کی نفی کرنا تھا ۔ جنرل اسمبلی نے دونوں قرار دادیں’’ اڈاپٹ ‘‘ (ADOPT ) کر لیں ۔ بحث کے دوران روس نے پاکستانی قرار داد کی مخالفت اور بھارت کی حمایت کی جبکہ چین نے پاکستان کے حق اور انڈیا کے خلاف اپنی رائے ظاہر کی ۔ برطانیہ ، فرانس اور امریکہ ووٹنگ سے غیر حاضر رہے ۔ 1975 اور 1976 میں بھی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر پاکستان نے یہ قرار داد منظور کر نے پر زور دیا ۔اگلی نمایاں پیش رفت 1977 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر سامنے آئی جب بھارتی قرار داد کو ناقابلِ سماعت دیتے ہوئے ’’ ڈراپ ‘‘ کر دیا گیا جبکہ پاک قرار داد کے حق میں امریکہ ، کینیڈا اور جاپان نے بھی ووٹ دیئے ۔ انتہائی اہم امر یہ ہے کہ 1977 کے اجلاس میں پہلی بار بھارت نے بھی پاکستان قرارداد کے خلاف ووٹ دینے کی بجائے غیر حاضر رہنے کو ترجیح دی اور اس کی غالباً بڑی وجہ یہ تھی کہ تب ’’ مرار جی ڈیسائی ‘‘ کی زیر قیادت بھارت میں پہلی بار کوئی غیر کانگرسی حکومت قائم ہوئی تھی جس کا رویہ نسبتاً اعتدال پر مبنی تھا ۔ تب واجپائی وزیر خارجہ تھے ۔
1980 تک پاکستان اپنے اس موقف کو دنیا سے منوانے کی بھر پور جدوجہد کرتا رہا ۔ تبھی تو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے پاکستانی صدر جنرل ضیاء الحق نے جنوبی ایشیاء کو کو’’ نیوکلیئر ویپن فری زون ‘‘ قرار دینے پر بھر پور اصرار کیا ۔ فروری 1985 میں یو این نے قدرے فعال کردار ادا کرتے ہوئے 21 ممالک پر مشتمل ایک پینل ترتیب دیا جس میں پانچوں مستقل ارکان بھی شامل تھے اور اس پینل سے کہا گیا کہ سائوتھ ایشیاء کے علاوہ مڈل ایسٹ ، بلقان ریجن ، شمالی یورپ ، افریقا اور سائوتھ پیسیفک کے خطوں کو جوہری ہتھیاروں سے پاک قرار دینے کی جانب عملی پیش رفت کی جائے مگر کچھ عرصے بعد اس گروپ کے سیکرٹری جنرل نے اعلان کر دیا کہ انڈیا اور ارجنٹائن جیسے ممالک اس ضمن میں خاطر خواہ تعاون نہیں کر رہے اس لئے اس گروپ کو ختم کیا جاتا ہے ۔ پاکستان نے اس ضمن میں محض یو این کے پلیٹ فارم سے ہی کوششیں نہیں کیں بلکہ امن کی یہ پہل اقوام متحدہ سے باہر بھی جاری رکھی اسی لئے مارچ 1976 میں شاہ ایران کے دورہ لاہور کے موقع پر بھٹو نے اپنی تقریر میں بھی اس کا ذکر کیا ۔ علاوہ ازیں 1976 ہی میں کینیڈا کے ساتھ جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ،اس میں بھی پاکستان کے اس موقف کو نمایاں جگہ دی گئی ۔ پھر 1978 میںدسویں اسلامی سربراہ کانفرنس میں پاکستان کے مشیر خارجہ ’’ آغا شاہی ‘‘ نے بھی یہ مطالبہ دہرایا ۔ اسی ضمن میں مئی 1979 میں صدر ضیاء الحق نے انڈین پرائم منسٹر کو لکھے اپنے خط میں سائوتھ ایشیاء کو جوہری اسلحے سے پاک قرار دینے کی بات کی جسے اس وقت کے وزیر خارجہ ہند واجپائی نے ناقابلِ عمل قرار دیتے کہا کہ ’’یہ مسئلہ صرف بھارت پاکستان کا نہیں بلکہ اسے وسیع تناظر میں حل کیا جا نا چاہیے ۔‘‘ مئی 1980 میں گیارہویں اسلامی سربراہ کانفرنس میں بھی پاکستان نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا ۔ ستمبر 1985 میں پاکستانی اٹامک انرجی کمیشن کے چیئر مین نے مڈل ایسٹ ، سائوتھ ایشیاء اور افریقہ کو کو’’ نیوکلیئر ویپن فری زون ‘‘ قرار دینے کی تجویز پیش کی۔ 19 مارچ 1998 میں واجپائی کی زیر قیادت BJP حکومت بننے کے محض 50 دنوں کے اندر یعنی گیارہ اور 13 مئی کو بھارت نے ’’ پوکھرن ‘‘ کے مقام پر پانچ ایٹمی دھماکے کیے جنہیں ’’ پوکھرن ٹو ‘‘ اور ’’ آپریشن شکتی کا نام دیا گیا ‘‘ ۔ اس کے فوراً بعد بھارتی حکمرانوں کا لب و لہجہ مکمل طور پر تبدیل ہو گیا اور تب وزیر دفاع ہند جارج فرنانڈیز نے چین کو بھارت کا دشمن نمبر ایک قرار دیا جبکہ وزیر داخلہ ’’ لعل کرشن ایڈوانی ‘‘ نے کہا کہ ’’اب پاکستان کو بھارت کے ساتھ بدلے ہوئے زمینی حقائق سامنے رکھتے ہوئے بات کرنی چاہیے کیونکہ اب بھارت اعلانیہ ایٹمی قوت بن چکا ہے‘‘ ۔
ظاہر سی بات ہے کہ یہ صورت حال پاکستان کے لئے قطعاً ناقابلِ قبول تھی اس لئے عوام و خواص کے بھرپور مطالبے کو پیش نظر رکھتے ہوئے 28 مئی 1998 کو پاکستان نے ’’ چاغی ‘‘ کے مقام پر سات ایٹمی دھماکے کیے تا کہ خطے میں طاقت کے توازن کو درست کیا جا سکے جس کے نتیجے میں ہندوستانی حکمرانوں کے طرزِ عمل میں فوری اور واضح تبدیلی دیکھنے کو ملی اور تقریباً 18برس کا عرصہ گزرنے اور خطے میں بہت سے اتار چڑھائو کے باوجود بھارت کو کھلی جارحیت کا حوصلہ نہیں ہوا جس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کا جوہری پروگرام علاقے میں امن و استحکام کی ضمانت ہے ۔
توقع کی جانی چاہیے کہ مندرجہ بالا حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عالمی برادری کے موثر حلقے اور وطنِ عزیز کے باشعور طبقات بھی بھارتی عزائم کا صحیح ادراک کرتے ہوئے اپنا کردار مزید موثر ڈھنگ سے نبھائیں گے اور آئندہ چند روز میں نیو کلیئر سپلائر گروپ میں پاکستان کو رکنیت دینے کی بابت تعمیری روش اختیار کی جائے گی اور بھارتی مذموم طرز عمل کے پیش نظر اس کی حوصلہ شکنی کی خاطر ایسے عملی اقدامات اٹھائے جائیں گے جس سے وہ امن دشمنی پر مبنی اپنے رویے پر نظر ثانی پر مجبور ہو ۔