تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ لوگ اس سے سبق نہیں سیکھتے، اپنے پیشروﺅں کا انجام دیکھتے ہوئے بھی دل مضطر کوئے ملامت کی طرف لپکتا ہے۔ اقتدار کی حرص اور ہوس عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ طفل تسلیاں! شاید اب کے ایسا نہ ہو۔ آدمی ہر وسوسے کو ذہن کے زندان سے باہر نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان کا ستر سالہ قیام دیکھیں تو اسے دور سیاہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ اقتدار کی جنگ، محلاتی سازشیں، قتل و غارت گری، دھوکہ، فریب اور ریاکاری، عقل حیران ہوتی ہے کہ جو ملک اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا وہ آج روح اسلام سے کتنا دور جا چکا ہے۔ آئیے اپنی تاریخ کا ایک اجمالی جائزہ لیں۔ اخلاص و مروت کی زندہ تصویر، عزم و ہمت کے بدر منیر، سنہری اصولوں کے کاربند، حضرت قائد اعظم زیارت میں اپنی حیات مستعار کی آخری گھڑیاں گن رہے ہیں۔ انکے ذاتی معالج نے غیر مبہم الفاظ میں بتا دیا ہے وہ سرآمد روزگارے ایں فقیرے۔ ملک کا وزیر اعظم بظاہر بیمار پرسی کیلئے آتا ہے۔ بانی پاکستان اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو بتاتے ہیں۔ بیمار پرسی تو محض اک بہانہ ہے دراصل یہ دیکھنے آیا ہے کہ سینے کی دھونکنی سے نکلتی ہوئی کتنی سانسیں باقی ہیں.... کچھ روز بعد معمار پاکستان کا جہاز کراچی ائرپورٹ پر اترتا ہے۔ پروٹوکول کے تحت وزیراعظم اور ساری کابینہ کو ائرپورٹ پر موجود ہونا چاہئیے تھا ان کا سواگت ایک پرانی ایمبولینس کرتی ہے۔ وزراءاقتدار کی بندر بانٹ میں مصروف تھے۔ مکافات عمل دیکھئے، وہی وزیراعظم پنڈی کے لیاقت باغ میں ایک قاتل کی گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔ سید اکبر تو ایک مہرہ تھا۔ اسے اس بات کا ادراک ہی نہیں تھا کہ پس پردہ کتنے بادشاہ اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ اس کے بعد ”میوزیکل چیرز“ کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ غلام محمد گورنر جنرل بنتا ہے۔ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے وہ ہر قانونی ضابطے کو پائمال کرتا ہے۔ حسین شہید سہروردی حکومت کیلئے درد سر بنا ہوا تھا۔ غلام محمد نے اسے بلا کر کہا۔ دیکھو! تم حکومت کیلئے مشکلات پیدا کر رہے ہو۔ میں تمہیں تین آپشنز دیتا ہوں۔ جب تک تم ان میں سے ایک قبول نہیں کر لیتے تم گورنر جنرل ہاﺅس سے باہر نہیں نکل سکتے۔ وزارت سفارت یا جیل! سکندر مرزا نے جس سازش سے غلام محمد کو ہٹایا، بالآخر وہ بھی اسی کا شکار ہو گیا۔ جرنیلوں نے ٹھڈوں اور تھپڑوں کے ساتھ اسے رخصت کیا۔
ایوب خان اپنے ہی نامزد جرنیل یحییٰ کے ہاتھوں معزول ہوئے۔ یحییٰ خان کو کسی بیرونی دشمن کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ جاتے جاتے وہ ملک دولخت کر گیا۔ بھٹو تختہ دار پر چڑا۔ ضیاءالحق اس طرح مرے کہ شناخت کا عمل بھی دشوار ہو گیا۔ بے نظیر بھی دست قاتل سے نہ بچ پائیں۔ اب رہ گئے ہمارے میاں صاحب، تو یہ بھی ایک طویل عرصے سے مانند خورشید ڈوب اور ابھر رہے ہیں۔ تین مرتبہ وزیراعظم رہے۔ دوبارہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ بنے۔ برادر خورد نے چار مرتبہ نہ صرف ان کے جوتوں میں قدم ڈالا بلکہ انکے تسموں کو بھی بڑی مضبوطی سے باندھ رکھا ہے۔ کبھی کبھی کمپنی کی مشہوری کیلئے بغیر تسموں کے ربڑ کے گھٹنوں تک لمبے جوتے پہن لیتے ہیں۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب ملک میں سیلاب آتا ہے۔ بارشوں سے کئی کئی روز محلے دریا بن جاتے ہیں۔ اس وقت چھوٹے صاحب کی پھرتیاں دیدنی ہوتی ہیں۔ چنگ چی رکشہ، بمبے بوٹ، پیچھے درباریوں کا پورا لاﺅ لشکر۔ جو چیخ چیخ کر قصیدہ خوانی کر رہے ہوتے ہیں۔ میاں صاحب نے بغیر پروٹوکول کے آج کئی گھنٹے عوام میں گزارے ہیں۔ بلٹ پروف گاڑی کی بجائے رکشہ کی سواری کی ہے۔ کئی سرکاری اہلکاروں کو بیک جنبش قلم معطل کیا ہے۔ ہر طرف واہ واہ ہوتی ہے۔ چار سو داد و تحسین کے ڈونگرے برسنے لگتے ہیں۔ اطالوی مصنف میکاﺅلی نے اپنی کتاب ”پرنس“ میں حاکموں کو حکمرانی کے داﺅ پیچ بتائے ہیں آج اگر زندہ ہوتا تو اپنی کم مائیگی پر کف افسوس ملتا اور ان کی شاگردی پر فخر محسوس کرتا۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ صوبہ اب چھوٹے صاحب کیلئے ”تنگنائے غزل“ بنتا جا رہا ہے کچھ اور چاہئیے وسعت میرے بیاں کیلئے۔ جس دن یہ وزیراعظم بنے تو یقیناً اس منصب جلیلہ کو انوکھی سمت عطا کریں گے۔ ایک نئی ہمت اور حوصلہ بخشیں گے۔
3۔ بات بڑے بھائی کی ہو رہی تھی۔ خوبیاں چھوٹے صاحب کی گنوانی شروع کر دی ہیں۔ دراصل دونوں کا بیک وقت ذکر لازم و ملزم ہے۔ کل کا مورخ بھی یہی لکھے گا، جمہوریت کو مضبوط و مستحکم کرنے میں دونوں کا کردار رہا ہے۔ ایک نے اگر جمہوریت کو جھپا ڈال رکھا ہے تو دوسرا اس بیچاری کو مسلسل گد گدا رہا ہے۔
4۔ پہلی مرتبہ بابا اسحقٰ کے ساتھ لڑائی لے ڈوبی۔ جنرل کاکڑ نے دونوں کا کڑاکا نکال دیا۔ دوسری مرتبہ جنرل مشرف کے ساتھ سینگ پھنسائے۔ انہوں نے جنرل کرامت کی طرح اسے بھی سوجی کا حلوہ سمجھا۔ ایک نہایت بچگانہ حرکت۔ اسکی برطرفی کا پروانہ اس وقت جاری کیا جب وہ بیس ہزار فٹ کی بلندی پر جہاز میں سوار تھا۔ وہ بھی کچی گولیاں نہیں کھیلا تھا۔ III برگیڈ کیل کانٹے سے لیس تیار کھڑا تھا۔
5۔ سمجھ نہیں آتی کہ اتنا کچھ ہونے کے بعد، اتنا کچھ سیکھنے کے بعد اب غلطی کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ پانامہ کا مقدمہ اپنی جگہ، ڈان لیکس کا سکینڈل کھڑا کرنے کی کیا تُک تھی۔ وہ بات جو چند آدمیوں کے درمیان بند کمرے میں ہو اس کا افشا وہ چند آدمی ہی کر سکتے ہیں۔ اس سے تو کسی طور جاں خلاصی ہو گئی ہے لیکن نہال ہاشمی کی صورت میں نیا قصہ کھڑا ہو گیا ہے۔ عمران خان نے اسے چوہا کہا ہے۔ خان کو شاید یہ علم نہیں کہ چوہا اپنی دم پر اس وقت ہی کھڑا ہوتا ہے جب اس نے شراب پی رکھی ہوتی ہے۔ چوہا از خود شراب نہیں پیتا، اسے پلائی جاتی ہے۔ مئے اقتدار کا ساقی کون ہے؟ یہ جاننے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے!
6۔ اب اس JIT اور ججوں پر اعتراض کیا جا رہا ہے جو درحقیقت ان کے محسن ہیں۔ یہ ان کا فیصلہ ہی تھا جس پر ن لیگ نے مٹھائیاں بانٹی تھیں اور برادران ایک دوسرے سے بغلگیر ہوئے تھے۔ یہ اچانک کیا ہو گیا ہے؟ دو ممبران پر اعتراض کیا گیا ہے۔ ایک کو میاں اظہر کا دور کا رشتہ دار بتایا گیا ہے میاں اظہر اس وقت سیاست کا عضو معطل بن چکے ہیں۔ انہیں مسلم لیگ سے، مشرف دور میں، یک بینی و دوگوش نکال دیا گیا تھا۔ ایک راندہ درگاہ اس وقت کیا رول ادا کر سکتا ہے۔ ویسے بھی فی زمانہ بھائی بھائی کی نہیں سنتا میاں اظہر کو کون خاطر میں لائے گا! JIT کے چھ ممبر ہیں۔ باقیوں پر اعتراض نہیں ہے۔ فیصلہ تو اکثریت نے کرنا ہے۔ جو حتمی نہیں ہو گا۔ جج صاحب اس کو قبول کرنے کے پابند نہیں ہیں۔ تین معزز جج صاحبان نہایت قابل اور غیر جانبدار ہیں ان میں سے اگر ایک بھی جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزار وغیرہ کا ہم خیال ہوتا تو اب تک نہ بانس رہتا نہ بانسری بجتی۔
جو لوگ میاں صاحب کے مزاج، اثر رسوخ، Maneuverings and Manapulations سے واقف ہیں، انہیں اندازہ ہے کہ اتنی جلدی یہ ہار ماننے والے نہیں ہیں۔ اب بھی انکے ہیٹ کے اندر کئی خرگوش چھپے ہوئے ہیں جنہیں موقع کی مناسبت سے یہ ایک ایک کر کے باہر نکالیں گے۔