زندہ باد ہمارے نوجوان سپوتو! ”تم جیتو یا ہارو‘ ہمیں تم سے پیار ہے“

قابل فخر قومی کرکٹ ”فخر“ اور ”سرفراز“ کے صدقے آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی میں روایتی حریف بھارت کے مقابل سرفراز
اوول کی تاریخی کرکٹ گراﺅنڈ میں پاکستان نے آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میچ میں اپنے روایتی حریف بھارت کو عبرت ناک شکست دےکر ٹرافی جیت لی اور اگلے ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کیلئے بھی کوالیفائی کرلیا۔ اتوار کے روز بھارت کی ٹیم اپنی فتح کے جشن کی تیاریاں کرتے ہوئے اوول کی گراﺅنڈ میں اتری اور بھارتی کپتان ویرات کوہلی نے ٹاس جیت کر پاکستان کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی مگر پاکستانی ٹیم کے اوپنرز فخرزمان اور اظہرعلی نے ہی بھارت کے آگے رنز کا پہاڑ کھڑا کرکے اس کا جیت کا نشہ ہرن کردیا اور اسے جیت کے سہانے سپنوں کی جگہ دن میں تارے نظر آنے لگے۔ پاکستان کے فخرزمان نے بارہ چوکوں اور تین چھکوں کی مدد سے یادگار 114 رنز بنائے جبکہ اظہرعلی 59 کے سکور پر رن آﺅٹ ہوئے۔ پاکستان کی ٹیم نے چار وکٹوں کے نقصان پر مجموعی 338 رنز بنائے اور بھارت کو جیت کیلئے 339 رنز کا ہدف دیا۔ رنز کا یہ پہاڑ پاٹنا دنیا کی نمبرون ٹیم ہونے کے زعم کا شکار بھارت کیلئے ناممکنات میں شامل تھا چنانچہ بھارتی کھلاڑی اپنے پھولتے ہوئے ہاتھ پاﺅں کے ساتھ میدان میں اترے تو پاکستانی بلے بازوں کی طرح باﺅلرز نے بھی انہیں تگنی کا ناچ نچا دیا اور پہلے ہی اوور کی تیسری گیند پر محمدعامر نے بھارتی اوپنر شرما کو ایل بی ڈبلیو آﺅٹ کرکے گراﺅنڈ کے باہر بھجودیا۔ انکے بعد کیپٹن ویرات کوہلی میدان میں آئے مگر محمدعامر کی جارحانہ باﺅلنگ کے آگے اپنا بلا نہ سنبھال سکے اور صرف پانچ رنز پر کیچ آﺅٹ ہو کر میدان سے باہر چلے گئے۔ اسکے بعد بھارت کی وکٹیں خزاں رسیدہ درخت کے پتوں کی طرح گرنے لگیں اور بھارت کی پوری ٹیم صرف 158 کے سکور پر ڈھیر ہوگئی۔ اس طرح پاکستان کو 180 رنز کی برتری سے مثالی فتح حاصل ہوئی۔ چیمپیئنز ٹرافی جیتنے پر پاکستان کے تمام کھلاڑی گراﺅنڈ میں وفورِ جذبات کے ساتھ خدا کے حضور سجدہ ریز ہوگئے۔ یہ ٹرافی جیتنے پر پاکستان کو 22 لاکھ ڈالر ملے جبکہ عبرتناک شکست پر بھارت میں صف ماتم بچھ گئی۔ پاکستان کے ہونہار نوجوان کھلاڑی فخرزمان مین آف دی میچ رہے جبکہ حسن علی کو چیمپیئنز ٹرافی میں سب سے زیادہ 13 وکٹیں لینے پر گولڈن بال ایوارڈ سے نوازا گیا اور انہیں پلیئر آف دی میچ بھی قرار دیا گیا۔ پاکستانی شاہینوں نے بیٹنگ‘ باﺅلنگ‘ فیلڈنگ اور وکٹ کیپنگ سمیت ہر شعبے میں حریف ٹیم بھارت کو ناکوں چنے چبوائے اور وہ اقبال کے شاہین کی طرح لپک کرچھپٹتے اور چھپٹ کر پلٹتے رہے اور بھارتی ٹیم کو عملاً باندھ کر رکھ دیا۔ اس طرح جس بھارتی ٹیم نے چیمپیئنز ٹرافی کے پہلے ہی میچ میں پاکستان کو شکست دے کر اپنا ناقابل تسخیر ہونے کا ہوّا کھڑا کیا تھا وہ فائنل تک پہنچتے پہنچتے پاکستان کے مقابل مٹی کا ڈھیر بن گئی۔ بھارتی کیپٹن ویرات کوہلی کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑا کہ پاکستان نے آج حیران کردیا۔ انہوں نے اپنی خفت مٹانے کیلئے یہ فقرہ بھی چست کیا کہ انہوں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ پاکستان کچھ بھی کر سکتا ہے۔
چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان کی فتح اس لئے بھی یادگار اور مثالی ہے کہ اس نے نہ صرف پہلی بار چیمپیئنز ٹرافی حاصل کی بلکہ فائنل میچ میں اپنے روایتی حریف بھارت کو شکست دی جس کے ساتھ کھیلتے ہوئے پوری قوم کے دل اپنے کھلاڑیوں کے ساتھ دھڑک رہے ہوتے ہیں۔ اگر پاکستان پورا ٹورنامنٹ ہار جائے تو قوم کو اتنا دکھ نہیں ہوتا جتنا بھارت سے کوئی میچ ہارنے پر دکھ ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں بھارت سے کوئی میچ جیتنے پر پاکستانی قوم کی خوشی بھی دوچند ہوجاتی ہے۔ یہ تو فائنل میچ تھا اس لئے اس میچ کے دوران قوم کا شوق اور جوش و جذبہ دیدنی تھا اور ملک بھر میں جشن کا سماں تھا۔ قوم کے ہر فرد نے یہ میچ یکجہت ہو کر دیکھا اور اپنے کھلاڑیوں کی کارکردگی پر انہیں کھل کر داد دیتے اور اپنی خوشی کے اظہار کیلئے روایتی انداز میں بڑھکیں مارتے اور ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے اور لڈیاں ڈالتے رہے۔ یہ میچ سیاست دانوں‘ جرنیلوں‘ بیوروکریٹس‘ تاجروں‘ صنعتکاروں‘ کسانوں‘ مزدوروں اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی تمام شخصیات سمیت قوم کے ہر خاتون و مرد اور بچوں نے یکسوئی کے ساتھ ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھ کر دیکھا جبکہ اوول کی گراﺅنڈ میں موجود پاکستانیوں نے جوش و جذبے کے مختلف انداز اختیار کرکے اپنے کھلاڑیوں کو دل کھول کر داد دی۔
پاکستان نے کرکٹ کے میدان میں 25 سال بعد کوئی بڑا ایونٹ جیتا ہے۔ 1992ءمیں پاکستان کرکٹ ٹیم نے عمران خان کی قیادت میں پہلی بار ورلڈ کپ جیت کر پاکستان کی دنیا بھر میں سرخروئی کا اہتمام کیا تھا اور اب 25 سال بعد سرفراز کی قیادت میں پاکستان نے چیمپیئنز ٹرافی میں بھارت کو ناقابل یقین شکست دے کر وطن عزیز کو دنیا میں سربلند و سرفراز کیا ہے جس پر بلاشبہ ٹیم کا ہر کھلاڑی سول سیاسی‘ عسکری اور عدالتی قیادتوں سمیت پوری قوم کی مبارکباد کا مستحق ہے جنہوں نے قوم کو عید سے پہلے عید کا بڑا تحفہ دیا ہے۔ سوئے اتفاق کہ پاکستان کو کرکٹ کے میدان میں ورلڈ کرکٹ کپ کی صورت میں 1992ءمیں بھی 22ویں رمضان المبارک کو کامیابی حاصل ہوئی اور اب چیمپیئنز ٹرافی کی صورت میں بھی 22ویں رمضان المبارک کو ہی سرخروئی حاصل ہوئی ہے جبکہ دونوں عظیم مواقع پر پاکستان میں میاں نوازشریف کی حکمرانی بھی اسی حسنِ اتفاق کے زمرے میں آتی ہے۔ عمران خان نے اپنی قیادت میں ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی کرکٹ ٹیم کو دنیا کی بے مثال ٹیم قرار دیا تاہم انہیں وسعتِ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کے مقابل چیمپیئنز ٹرافی جیتنے والی موجودہ ٹیم کی بھی اسی جذبے کے ساتھ ستائش کرنی چاہیے۔ اگر صدر مملکت‘ وزیراعظم اور دوسرے قومی سیاسی قائدین کے علاوہ چیف جسٹس آف پاکستان اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان نے بھی پاکستان کرکٹ کو دل کھول کر داد دی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پوری کرکٹ ٹیم کو عمرے پر بھجوانے کا اعلان کیا ہے اور مریم نواز اور آصفہ بھٹو نے اپنے ٹویٹر پیغامات کے ذریعے پاکستانی کرکٹروں کو دل کھول کر داد دی ہے تو عمران خان کو بھی سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ ٹیم کی اس سرخوشی کو اپنی سیاست کے پیمانے سے نہیں دیکھنا چاہیے اور یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ قوم کو جلد ایک اور خوشخبری ملے گی۔ کم از کم انہیں کھیل کے میدان میں تو سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے گریز کرنا چاہیے۔
کیا یہ کم خوشی کی بات ہے کہ ہماری جو کرکٹ ٹیم علاقائی اور عالمی ٹورنامنٹس میں پے در پے شکستوں کے باعث چیمپیئنز ٹرافی اور ورلڈ کرکٹ کپ سے عملاً باہر ہو چکی تھی اور اسکی کارکردگی گلی محلوں کی کرکٹ ٹیموں سے بھی خراب نظر آتی تھی‘ اس نے چیمپیئنز ٹرافی میں اپنا پہلا ہی میچ ہارنے کے باوجود ہمت نہیں ہاری اور انگلینڈ‘ جنوبی افریقہ‘ سری لنکا جیسی دنیا کی بھاری ٹیموں کو شکست سے ہمکنار کرتے ہوئے فائنل میں مضبوط ترین ہونے کے زعم میں مبتلا بھارت کو بھی اس طاقت کے ساتھ پچھاڑا کہ وہ آئندہ طویل عرصے تک اپنے زخم چاٹتا رہے گا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم چیمپیئنز ٹرافی کیلئے میدان میں آئی تو عالمی کرکٹ رینکنگ میں وہ آٹھویں نمبر پر تھی اور آج وہ سرخرو ہو کر واپس آئی ہے تو عالمی رینکنگ میں چھٹی پوزیشن پر آچکی ہے جس کا اب کولیفائننگ میچ کے بجائے براہ راست ورلڈ کپ کھیلنا بھی یقینی ہوگیا ہے اور ہمارے نوجوان کرکٹروں نے یہ ثابت کردیاہے کہ وہ صرف پاکستان کیلئے کھیلنے کے جذبے کے ساتھ میدان میں اتریں تو اپنے ہر حریف کو پچھاڑ سکتے ہیں اور بھارت کو پچھاڑنے کا تو مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے جس نے اپنی سازشوں کے تحت پاکستان کیلئے عالمی اور علاقائی کرکٹ کے دروازے بند کرانے کی بھونڈی کوشش کی مگر آج اسکی تمام سازشیں اور مکاریاں اسکے منہ پر تھپڑ کی طرح آن پڑی ہیں اور آج دنیا بھر میں نوجوان پاکستانی کرکٹروں کی ستائش و پذیرائی ہورہی ہے جس سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ کرکٹ پر سیاست نہ کی جائے‘ اس میں سفارشی کلچر حاوی نہ ہونے دیا جائے اور میرٹ پر ”ینگ بلڈ“ کو لا کر اسکی مناسب ٹریننگ کی جائے تو یہ ہونہار نوجوان کرکٹ کے میدان میں پاکستان کا سر کبھی نیچا نہیں ہونے دینگے۔ آج ہمارے نوجوان کرکٹروں نے اپنے والدین ہی نہیں‘ پوری قوم کے سر فخر سے بلند کر دیئے ہیں۔ زندہ باد ہمارے ہونہار نوجوانو! ”تم جیتو یا ہارو‘ ہمیں تم سے پیار ہے“

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...