خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی شادی کے موقعے پر عظیم ترین والد رسولؐ اکرم و اعظم حضرت محمدؐ نے اپنی بہت پیاری بیٹی سے کہا اے فاطمہؓ! علیؓ کی غریبی کا خیال رکھنا۔ اس طرح تو غریبی خوش نصیبی بن گئی ہے۔ حضرت علیؓ نے دوسری شادی نہیں کی جب تک حضرت فاطمہؓ زندہ رہی۔
حضور کریمؐ نے فرمایا ’’میں علم کا شہر ہوں علی اس کا دروازہ ہے‘‘ یہ کس علم کی بات ہے وہ تو اُمی لقب تھے۔ یہ علم کے علاوہ کوئی علم ہے
علم را برتن زدی مارے بود
علم را بردل زدی یارے بود
حضرت علیؓ کی پیدائش خانہ کعبہ میں ہوئی۔ ہم شاعروں کے لئے فخر کرنے کی ایک بات یہ ہے کہ حضرت علیؓ بہت زبردست شاعر تھے۔ آپ کو شیر خدا کا لقب رسول کریمؐ نے عطا کیا…؎
جسے نانِ جویں بخشا ہے تو نے
اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر
21رمضان کو حضرت علیؓ شہید ہوئے۔ ان پر نماز پڑھتے ہوئے حملہ کیا گیا۔ حضرت عمرؓ کو بھی نماز پڑھتے ہوئے شہید کیا گیا۔ حضرت عثمان کو قرآن پڑھتے ہوئے شہید کیا گیا۔ حضرت ابوبکرؓ کو ایک روایت کے مطابق زہر دیا گیا تھا۔ وہ بھی شہید ہوئے تو نماز کی تیاری کر رہے تھے
نماز عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں
ایک گفتگو میں کاشف محمود نے مجھ سے پوچھا کہ آج کے حکمرانوں کا موازنہ حضرت علیؓ کے دور حکومت سے کیا جا سکتا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ موازنہ بے معنی ہے۔ وہ امیرالمومنین تھے اور غریب تھے۔ یہ غریبوں کے نمائندہ ہیں اور ظالمانہ حد تک امیر کبیر ہیں۔ ان پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں۔ ہمارے یہاں الزام اور انعام میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ یہ عدالتوں میں ملزم کی حیثیت میں پیش ہوتے ہیں۔ انہیں ہر وقت اللہ کے سامنے پیش ہونے کا خوف تھا۔
خلفائے راشدین کی ایک بھی ادا موجودہ حکمرانوں کے طرز حکومت میں ہوتی تو زندگی کمال کی حدوں کو چھوتی نظر آتی۔ ہمارے ملک کا غریب طبقہ آسودہ ہوتا اور امن و امان کی شاندار صورتحال ہوتی۔ انہیں تو یہ بھی معلوم نہ ہو گا کہ حضرت علیؓ کس شہر میں مدفون ہیں۔ میں عراق میں نجف اشرف گیا ہوں وہاں علی المرتضیٰ کا گھر بھی دیکھا۔ ہمارے عام سادہ اور غریبانہ گھروں جیسا ایک گھر ہے جہاں امیرالمومنین رہتے تھے۔ میں نے اسلام آباد میں ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس بھی دیکھا ہے البتہ شہباز شریف کا گھر ماڈل ٹائون کے دوسروں عام گھروں جیسا ہے۔ بہرحال وہ بھی امیرانہ گھر ہے اس کے ساتھ والے کئی گھر اس سے زیادہ بڑے اور امیرانہ ہیں۔
پاکستان جیت گیا۔ یہ بات جیت سے بڑی جیت ہے کہ پاکستان بھارت سے جیت گیا ہے۔ پاکستان بھر کے لوگوں کی یہ قلبی کیفیت ہے کہ وہ بھارت سے تو بہرحال جیتنا چاہتے ہیں ابھی ایک بڑی جیت کا انتظار ہے۔ اہل دل اور صوفی لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک بڑی خوش قسمتی پاکستان کے حصے میں لکھی گئی ہے کہ دنیا کے سب ملک پاکستان سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے آئیں گے۔
پاکستان کے سب کھلاڑی مل کر سربسجود ہوئے۔ بڑا اچھا لگا۔ یہ ادائے ناز و نیاز ہے کہ جو میرے رب کے لئے سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ اللہ کے حضور سربسجود ہونا ایک پیغام ہے کہ ابھی دو قومی نظریہ زندہ ہے۔ ہمارا کوئی بیٹسمین سنچری بناتا ہے تو وہ بھی سربسجود ہوتا ہے۔ یہ ذاتی سرشاری ہے اور اجتماعی سرشاری کا مظاہرہ بھی ہم نے دیکھ لیا ہے۔ ہم وہی ہیں اجتماعی طور پر بھی اور ذاتی طور پر بھی۔
لوگوں کی مبارکباد ٹی وی چینلز پر نہیں آئی۔ اصل میں انہوں نے یہ مبارکباد اپنے آپ کو دی ہے۔ ہر پاکستانی سمجھتا ہے کہ وہ خود جیتا ہے۔ نواز شریف، عمران خان، خورشید شاہ، رضا ربانی اور دوسرے سیاستدانوں نے مبارکباد دی ہے۔ مگر مجھے شہباز شریف کی ادائے دلبرانہ اچھی لگی کہ انہوں نے کھلاڑیوں والی سبز کِٹ پہن کر میچ دیکھا اور اسی طرح مبارکباد دی۔ یہ یکجہتی کا ایسا اظہار ہے کہ اس کے لئے کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔ عمران خان کا یہ جملہ بہت شاندار ہے۔ پاکستان کی اس جیت نے ہمیں متحد کر دیا ہے۔ وہ خود بھی اس قومی اتحاد کا حصہ بنیں۔ قومی اتحاد تو ہے ضرورت سیاسی اتحاد کی ہے۔ اس میں ہر پارٹی لیڈر کی شمولیت ہونا چاہئے۔ عمران اور نواز شریف پہل کریں۔
ریاض ندیم نیازی ایک بہت اچھا شاعر ہے۔ وہ میانوالی کا ایک اعزاز ہے۔ مگر اس نے سبی کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا ہے۔ اس طرح وہ بلوچستان کا اعزاز بھی ہے۔ کتابوں کے ساتھ اس کی محبت کا اندازہ لگائیں کہ اس نے اپنے گھر پر ندیم لائبریری کا بورڈ لگا رکھا ہے۔ ریاض ندیم نیازی کے نعتیہ مجموعے زیادہ ہیں۔ غزل نظم کے مجموعے ’’تمہیں اپنا بنانا ہے‘‘ کے بعد ’’یادوں کے بھنور‘‘ ایک خوبصورت اور شاندار شعری مجموعہ شائع ہوا ہے۔ ان کے بارے میں ڈاکٹر نثار ترابی، ڈاکٹر نسیم فاطمہ، لبنیٰ صفدر نے اپنی آرا کا اظہار کیا ہے۔ … سیف اور راحت نذیر راحت نے انہیں منظوم خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ریاض ندیم کے کچھ اشعار دیکھئے…؎
وہ بھی لمحے آئیں گے وہ بھی زمانہ آئے گا
اس کے ہونٹوں پر مرے دل کا فسانہ آئے گا
ظلم کی اور جبر کی حد بھی کبھی ہو جائے گی
اور مظلوموں کو اک دن سر اٹھانا آئے گا
رنگ لائے گی مری چاہت کسی دن دیکھنا
وہ مری دہلیز پر خود والہانہ آئے گا