جے آئی ٹی کو ہراساں نہ کیا جائے‘ سربراہ تحقیقاتی ٹیم بھی کام پر دھیان دیں : سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + ایجنسیاں) پانامہ جے آئی ٹی عمل درآمد بینچ نے ایف آئی اے کو ایس ای سی پی کیخلاف کارروائی کرنے اور اٹارنی جنرل کو آئی بی کے جواب پر عدالت کی معاونت کرنے کی ہدایت کر دی، عدالت نے واجد ضیاء کو کہا کہ جے آئی ٹی کو جو ذمہ داری سونپی گئی ہے اس پر فوکس کرے، جے آئی ٹی کی درخواست پر سماعت جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کی، عدالت نے اٹارنی جنرل کو جے آئی ٹی کی درخواست اور اپنے جواب کے کچھ حصے پڑھنے کی ہدایت کی، جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ ڈائریکٹر جنرل آئی بی نے اپنے جواب میں اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے نادرا سے ریکارڈ حاصل کیا ہے، سوال یہ ہے کہ آئی بی کا حاصل شدہ ریکارڈ حسین نواز کے پاس کیسے پہنچا؟ معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئیں، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا ایف آئی اے معاملے کی تحقیقات کر سکتی ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا یہ تحقیقات شکوک و شبہات سے بالاتر ہونگی، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین ایس ای سی پی کیخلاف سنگین الزامات لگے ہیں، اٹارنی جنرل صاحب ہم نے سمجھا تھا آپ اس پر کارروائی کرینگے، ہم آپکی رائے کو اہمیت دیتے ہیں، میڈیا پر منظم مہم چل رہی ہے لیکن ہم کسی سے ڈرتے نہیں ہیں، ہم نے فیصلہ آئین و قانون کے مطابق کرنا ہے، عدالت نے اپنے حکم میں ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو چیئرمین ایس ای سی پی کیخلاف کارروائی کرنے اور عمل درآمد رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کی ہدایت کر دی ہے، جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کیا ملک میں وائٹ کالر کرائم، دہشتگردی اور جرائم ختم ہو چکے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی سویلین ایجنسی جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کے ججز کے کوائف اکٹھا کر رہی ہے، کیا آئی بی کی نجکاری کر دی گئی ہے جو پرائیویٹ لوگوں کو خدمات دے رہی ہے، جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ ڈائریکٹر جنرل آئی بی کی مدت ملازمت میں توسیع ذاتی کام کیلئے کی گئی ہے، عدالت اٹارنی جنرل کو آئی بی کے جواب عدالتی معاونت کی ہدایت کر دی، عدالت نے جے آئی ٹی کے سربراہ کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ادھر ادھر کے معاملات میں پڑنے کی بجائے اپنے کام پر دھیان دیں اور مقررہ مدت کے اندر رپورٹ تیار کریں۔ فواد چودھری نے کہا کہ اجازت ہوتو کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ عوام کو تاثر غلط جارہا ہے۔ منظور چیزیں لیک ہو رہی ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نے بھی ایسی شکایت کی ہے۔ ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ بند نہ ہوا تو ناخوشگوار حکم جاری کریں گے۔ صرف مخصوص نہیں اب تو ہر چیز لیک ہورہی ہے۔ تمام چیزوں پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہ معاملہ آپ کا نہیں جے آئی ٹی اور عدالت کا ہے۔ عدالت ےہ معاملہ خود بھی دیکھ رہی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا ایس ای سی پی نے الزامات کی تردید کی ہے۔ جواب میں لکھا ہے الزامات بادی النظر میں غلط ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کےا ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کا الزام جرم نہیں؟ ایف آئی آر بھی الزام پر کاٹی جاتی ہے۔ چیئرمین ایس ای سی پی کیخلاف تحقیقات کی جائیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ دفعہ 468 اور دیگر مقدمات کے تحت مقدمہ درج ہوتا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ انتہائی سنگین الزامات لگائے گئے، میڈیا اور حکومتی نمائندے منظم مہم چلا رہے ہیں۔ حقائق جانے بغیر بہت کچھ کہا گیا۔ ہمیں کسی کے کہنے سے کوئی ڈر نہیں۔ زمین پھٹے یا آسمان گرے قانون کے مطابق چلیں گے۔ خاموش تماشائی نہیں بنے رہ سکتے۔ چیئرمین ایس ای سی پی کے خلاف سنگین الزامات ہیں۔ آپ نے سیدھا سیدھا کہہ دیا کہ الزامات غلط ہیں۔ آپ سے کسی کی طرف داری کی امید نہیں ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ میرا ذاتی جواب نہیں تھا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ سے کافی مایوس ہوئے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا اداروں کی جانب سے ملنے والے جواب دیئے تھے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی نے ہراساں کرنے کا بھی آئی بی پر الزام لگایا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئی بی نے صرف الزامات کی تردید کی شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ڈی جی آئی بی نے ایک خط بھی لکھا ہے۔کیا آئی بی ہمارا ڈیٹا بھی اکٹھا کرتی ہے؟ کیسے مان لوں میری مانیٹرنگ نہیںہوتی، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئی بی کو یہ اختیار کس قانون کے تحت ملا۔ عدالت نے کہا کہ ہم نے کوئی بھرتیاں نہیں کی۔ جے آئی ٹی مقرر کی تھی۔ کس نے اختیار دیا جے آئی ٹی ممبران کو ہراساں کیا جائے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ یہ کوئی سائیکل نہیں جو ہر چیز کو لیک کا نام دیا جائے۔ یہ معلومات باقاعدہ جاری کی جاتی ہیں۔ آئی بی کے سربراہ کا خط اعتراف جرم ہے۔ آئی بی ریاست کے لیے کام کرتی ہے یا کسی فرد کے لیے؟ اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ عدالت نے کہا کہ کیا آئی بی، ایس ای سی پی سب ہی رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈی جی آئی بی کو صفائی کا موقع ملنا چاہیے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا ہے کہ ایسے افراد کے خلاف فوجداری کا مقدمہ درج ہونا چاہیے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے معاملے کی تحقیقات کرسکتا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا آئی بی کی تحقیقات ایف آئی اے کرے گا؟ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ بہت سے سوالات پوچھنے کا وقت آگیا ہے۔ بتانا ہوگا آئی بی کا کام اور منیڈیٹ کیا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ پبلک آفس ہولڈر افراد عدلیہ پر حملہ آور ہورہے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ میڈیا اور حکومتی نمائندے منظم مہم چلا رہے ہیں۔ 8لوگ مختلف چینلز سے جے آئی ٹی پر حملہ آور ہیں۔ عدالت صبر کررہی ہے۔ ہمیں اکسایا نہ جائے۔ وقت آنے پر اس حوالے سے حکم جاری کریں گے۔ جے آئی ٹی کو ہراساں کرنے کا عمل رکنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کوئی ناخوش گوار حکم جاری کریں۔ عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو ریکارڈ ٹمپرنگ معاملے کا جائزہ لینے کا حکم دے دیا۔ جبکہ متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔ عدالت نے کہا ڈی جی آئی بی کے معاملے پر اٹارنی جنرل معاونت کریں۔اٹارنی جنرل کی معاونت سے معاملہ منطقی انجام تک پہچائیں گے۔ ضرورت پڑی تو ڈی جی آئی بی کو بھی طلب کیا جائے گا۔ جے آئی ٹی ساری توجہ اپنے کام پر مرکوز رکھے۔ جے آئی ٹی کو دائیں بائیں دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ جے آئی ٹی میڈیا سمیت کسی کی باتوں پر کان نہ دھرے۔ جے آئی ٹی سے عدم تعاون کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو آئی بی کے جواب عدالتی معاونت کی ہدایت کر دی، عدالت نے جے آئی ٹی کے سربراہ کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ادھر ادھر کے معاملات میں پڑنے کی بجائے اپنے کام پر دھیان دیں اور مقررہ مدت کے اندر رپورٹ تیار کریں۔ جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ کیا آئی بی ہمارا ڈیٹا بھی اکٹھا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیسے مان لوں کہ ان کی مانیٹرنگ نہیں کی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس بیورو کے اہلکار کسی فرد کے لیے کام کرتے ہیں یا پھر ریاست کے لیے۔ انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ کا خط اعتراف جرم کے برابر ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آئی بی کے سربراہ کو صفائی کا موقع ملنا چاہیے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایسے افراد کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہونے چاہئیں۔ بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ آئی بی کو یہ اختیار کس قانون کے تحت ملا کہ لوگوں کے کوائف اکھٹے کرتی پھرے۔ ا±نھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے کوئی بھرتیاں نہیں کیں بلکہ جے آئی ٹی مقرر کی تھی۔ بینچ کے سربراہ نے اٹارنی جنرل کو آئی بی کے معاملے پر عدالت کی معاونت کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آئی بی، ایس ای سی پی سب ہی رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی بی کس حساب سے ہر معاملے میں ناک پھنسا رہی ہے۔ بینچ کے سربراہ نے کہا کہ جے آئی ٹی نے سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن پر تحقیقات پر اثر انداز ہونے کا الزام لگایا ہے جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایس ای سی پی نے الزامات کی تردید کی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا ریکارڈ میں ٹمپرنگ کا الزام جرم نہیں ہے جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ دفعہ 468 اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوتا ہے۔ عدالت نے ایس ای سی پی کے ریکارڈ میں مبینہ طور پر ٹمپرنگ کا معاملہ ایف آئی اے کو بھجوا دیا ہے۔ عدالت نے ایف آئی اے کے سربراہ کو اس بارے میں رپورٹ جلد پیش کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ کی جانب سے حسین نواز کی تصویر لیک ہونے کا فیصلہ آج سنایا جائے گا۔ جے آئی ٹی میں ویڈیو بیان ریکارڈ کا فیصلہ بھی سنایا گیا۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ 14جون کو محفوظ کیا تھا۔

جے آئی ٹی / سپریم کورٹ

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...