کشمیری اور سکھ نوجوانوں نے ہتھیار اٹھا لئے!

مودی سرکار کی انتہاپسندانہ مسلمان دشمنی ذہنیت کے منفی اثرات او ربھارتی فوج کے انسانیت سوز مظالم نے کشمیری عوام کو مسلح جدوجہد کی جو راہ دکھائی ہے یہ منطقی ردعمل ہے۔ یہ تنگ آمد بجنگ آمد کا عملی مظاہرہ ہے۔ بھارتی فوج نے رواں سال میں مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں 88 نوجوانوں کو شہید کیا جنہیں جنگجو کہا جاتا ہے مقبوضہ کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ کے بقول بھارتی فوج سے لڑنے والے کشمیری نوجوانوں کی تعداد ہر روز اضافہ ہورہا ہے جبکہ غیرملکی مجاہدین کی تعداد کم ہے۔ دلباغ سنگھ نے مزید انکشاف کیا کہ ان کشمیری نوجوانوں کے پاس صرف پستولیں ہیں جبکہ بھارتی فوج کے پاس جدید ترین اسلحہ موجود ہے اور بھارت سے مسلسل سپلائی کا سلسلہ بھی جاری ہیں۔ اس انکشاف یا اعتراف کا ایک نمایاں ترین پہلو یہ ہے کہ 8 لاکھ بھارتی فوج ان پستول بردار نوجوانوں کا مقابلہ نہیں کر پارہی بلکہ اسرائیل سے عملی مدد حاصل کی گئی ہے اور اب اسرائیلی کمانڈوز مجا￿دین کیخلاف جنگ کررہے ہیں۔
ادھر خالصتان تحریک نے زور پکڑ لیا ہے۔ پورے بھارتی پنجاب اور ہریانہ میں یہ تحریک پھیل گئی ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان دونوں ریاستوں (صوبوں) کے شہروں روہتک، حصار، کرنال اور سرسہ سمیت کئی شہروں اور قصبوں دیہات تک میں جگہ جگہ کمپیوٹرائز پوسٹروں کی بھرمار ہے جن پر خالصتان زندہ باد لے کے رہیں گے خالصتان، بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘ کے نعرے درج ہیں۔ ایسے پوسٹرز بعض مذہبی مقامات درگاہ ٹمپل ، گوردوارہ رام تیرتھ، گوردوارہ رام باغ، گوردوارہ سنگھ سبھا کے باہر بھی چسپاں کئے گئے ہیں۔ پولیس جنہیں اتارتی ہے مگر پھر لگا دیئے جاتے ہیں جس سے بوکھلا کر مودی سرکار سکھوں کو دہشت گرد قرار دے کر گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کرچکی ہے جسکے نتیجے میں تحریک کو زیادہ تقویت مل رہی ہے۔ آزاد خالصتان کیلئے عالمی ریفرنڈم کی تاریخ نزدیک آنے پر خالصتان تحریک میں جوش و خروش اور زیادہ بڑھ گیا ہے۔ دو تین سال قبل جب سکھ فار جسٹس نامی تنظیم نے بھارت سے آزادی اور خالصتان بنانے کیلئے 2020ء میں عالمی ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا تھا تو اسے بھارت میں بالخصوص بھارتی میڈیا میں مذاق سمجھا گیا تھا لیکن اب خود بھارتی میڈیا اس کے حقیقت بننے کا اعتراف کررہا ہے۔ نومبر 2020 میں ہونیوالے ریفرنڈم کیلئے سکھ فار جسٹس نے واشنگٹن میں ہیڈکوارٹر قائم کردیا ہے جبکہ 20 سے زائد ممالک میں پولنگ بوتھ قائم کئے گئے۔ اس وقت مودی سرکار کے ایوانوں میں سراسیمگی پھیل گئی جب بھارت میں سکھوں کی بڑی تنظیم اکال تخت کے سب سے بڑے جتھے دار گیانی ہرپریت سنگھ کا یہ بیان سامنے آیا کہ تمام دنیا کے سکھ خالصتان کا قیام چاہتے ہیں۔ اندراگاندھی کے دور میں ہونے والے آپریشن بلیو سٹار کے ذریعہ امرتسر میں سکھوں سے سب سے بڑے مذہبی مقام اکال تخت یا گولڈن ٹمپل پر فوج کشی کرکے بڑی تعداد میں سکھوں کو ہلاک کردیا گیا تھا اور پھر اندراگاندھی کے قتل کے بعد دہلی اور دیگر شہروں میں سکھوں کو بے دردی سے سڑکوں، گلیوں، بازاروں اور گھروں میں گھس کر انتہاپسند ہندوئوں نے ہزاروں کی تعداد میں قتل کردیا تھا۔ اس واقعہ کے 36 سال پورے ہونے پر ایک بھارتی صحافی کے سوال کے جواب میں گیانی ہرپریت سنگھ نے کہا کہ پوری دنیا کے سکھ اپنے الگ وطن کے خواہشمند ہیں اگر انڈین گورنمنٹ انہیں یہ پیشکش کرتی ہے تو وہ خوشی سے قبول کریں گے اگر نوجوان خالصتان کا نعرہ لگاتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ دریں اثناء شری منی گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کے صدر گوبند سنگھ لانگوال نے بھی خالصتان کی حمایت کردی ہے۔ دو بڑی سکھ تنظیموں کے اہم سربراہوں کی جانب سے حمایت نے بھارتی حکمرانوں کی رات کی نیند اڑا دی ہے۔ پنجاب اور ہریانہ میں پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو متحرک کردیا گیا ہے۔ چندی گڑھ ٹر بیون کی رپورٹ کے مطابق بڑی تعداد میں سکھ نوجوانوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق اکال تخت، گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کے موقف کی جنگجو تنظیم دل خالصہ کے سربراہ گجندر سنگھ بھی تائید کررہے ہیں جبکہ ٹیلی گراف آف انڈیا نے بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے سے الزام عائد کیا ہے کہ گجندر سنگھ نے پاکستان میں پناہ لے رکھی ہے۔
دریں اثناء انسداد دہشتگردی ایجنسی نے خالصتان لبریشن فورس کو اسلحہ فراہم کرنے والا گینگ گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور میڈیا کو برآمد کئے جانے والا اسلحہ بھی دکھایا گیا ہے۔ انسداد دہشت گردی سکواڈ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل دھرووا کانت ٹھاکر نے دعویٰ کیا ہے کہ مغربی اترپردیش اور پنجاب میں خالصتانی دہشت گرد گرفتار کئے گئے ہیں۔ جن کی نشاندہی پر میرٹھ کے علاقے کھٹور سے ایک مسلمان جاوید کو انہیں اسلحہ فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اس دعویٰ سے اس حقیقت کی نشاندہی ہوتی ہے کہ مودی سرکار کی انتہاپسندانہ پالیسیوں نے اقلیتوں کو باہمی طور پر متحد ہوکر مقابلہ کرنے کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ یاد رہے بھارت کی حقیقت لڑاکا فوج سکھوں اور نیپال کے گورکھوں پر مشتمل ہے۔ مودی سرکار پریشان ہے کہ اس نے نیپالی زمین کالا پانی پر قبضہ کی حماقت کرکے نیپالی عوام کو بھارت کا سخت مخالف بنا دیا ہے۔ اگر اس کا اثر گورکھا فوجیوں نے قبول کرلیا اور خالصتان تحریک کے زور پکڑنے پر سکھ فوجیوں کا ذہن تبدیل ہوگیا تو بھارتی فوج پر اس کا بہت منفی اثر پڑے گا جبکہ لداخ میں چین کے ہاتھوں عبرتناک شکست نے بھارتی فوج کا مورال پہلے ہی ڈائون کررکھا ہے۔
انتہاپسند ہندو ایسی ظالم چیز ہیں کہ مسلمان، سکھ اور عیسائی تو غیرمذہب ہیں یہ ان دلتوں کو بھی ظلم و تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں جن کا مذہب ہندو ہے۔ محض اس لئے کہ وہ چھوٹی ذاتی سے تعلق رکھتے ہیں۔ دلتوں سے نفرت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے الٰہ آباد میں 52 سالہ کشن لال اور 22 سالہ اسکے بیٹے راجیش کو دس سے پندرہ افراد نے لاٹھیوں، اینٹوں سے حملہ کرکے ہلاک کردیا۔ کشن لال کی لاش گھر سے اور راجیش کی لاش دو کلومیٹر دور کھیت سے ملی۔

ای پیپر دی نیشن