کرونا کے حوالے سے احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے یہ وبا اور تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اموات اور مریضوں کی تعداد بھی حد سے زیادہ بڑھتی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے ایسے تمام لوگوں کو جو احتیاط نہیں کر رہے جاہل کہہ دیا اور باالخصوص اہلِ لاہور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لاہوریے عجیب مخلوق لگتے ہیں (گو بعد میں انہوں نے معذرت کر لی)، اگلے دن بلاول بھٹو نے کہا کہ عوام جاہل کہنے والوں سے بدلہ ضرور لیں گے۔ میں انتہائی ادب کے ساتھ ڈاکٹر یاسمین راشد اور بلاول بھٹو کے ساتھ اختلاف کرتا ہوں۔ مجھے اس سے غرض نہیں کہ کس اہم سیاسی شخصیت کا تعلق لاہور سے ہے۔ اس سے بھی غرض نہیں کہ کس کھلاڑی، سماجی، ادبی یا روحانی شخصیت کا تعلق اس شہر سے ہے۔ میں چند حقائق آپ کے سامنے رکھنے کی کوشش کروں گا۔ پاکستان نے 1992 میں کرکٹ ورلڈکپ عمران خان کی سربراہی میں ضرور جیتا۔ اگر اس ٹورنامنٹ میں کھیلے گئے قومی ٹیم کے تمام میچوں کی کارکردگی دیکھیں تو ہم کسی طور پر ایک فاتح ٹیم نظر نہیں آتے تھے اور پھر صورتِ حال یہاں تک پہنچی کہ فلاں ٹیم جیتے اور فلاں ٹیم ہارے تو پھر ہمارے آگے بڑھنے کے زیادہ چانسز ہونگے۔ اس طرح کے حالات میں بالآخر ہم نے فائنل جیتا۔ اس میں بھی اللہ کا خصوصی کرم تھا۔ مرحوم فاروق مظہر ہاکی کے مشہور کمنٹیٹر اور عالمی سپورٹس جنرلسٹ تھے، دنیا بھر میں ان کی عزت تھی، میرے بہت اچھے دوست اور بڑے بھائیوں کی طرح تھے۔ وہ ایک دلچسپ قصہ سناتے تھے کہ جس دن پاکستان ورلڈ کپ جیتا تو میں اپنا کالم فیکس کرنے ہوٹل ریسپشن پر آیا تو اس وقت وہاں انٹرنیشنل کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر کھڑے تھے۔ پوچھنے لگے فروٹ (پیار سے دوست انہیں فروٹ کہا کرتے تھے) کیسے آئے ہو۔ میں نے بتایا اپنا کالم فیکس کرنے تو صدر ایسوسی ایشن کہنے لگے کہ مجھے نہیں معلوم کے تم نے کالم میں کیا لکھا ہے مگر ایک بات ضرور لکھنا، وہ یہ کہ قسمت کا تعلق بھی شاید پاکستان سے ہے۔ چنانچہ ایسے حالات میں جیتے ٹورنامنٹ کا کریڈٹ عمران خان لے رہے ہیں۔ عمران خان کی اگر 24 سالہ سیاسی زندگی کا جائزہ لیں تو دو باتوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے وہ یہ کہ ان کی شخصیت کو ابھارنے میں ایک میڈیا کا ہاتھ ، دوسرا مغرب اور مقتدرہ قوتوں کا اور چونکہ ملک میں دو سیاسی قوتیں بار بار آمائے جانے کی وجہ سے ناقابل قبول ہوتی جا رہی تھیں۔ تو بوجہ مجبوری تیسری سیاسی قوت کو ایک موقع ضرور ملنا چاہئیے تھا۔ عمران خان کے دو سالہ دورِ اقتدار کا جائزہ لیں تو شدید بے زاری کے سوا پوری قوم کو اور کچھ بھی نہیں ملے گا۔ ان کے کسی بھی پرانے قول کا موجودہ فعل سے موازنہ کریں تو سوائے یوٹرن کے اور کچھ بھی نہیں ملے گا۔ قوم کے ساتھ نہ جانے کیا کیا وعدے کیے، نوکریاں، بے روزگاری کا خاتمہ، انصاف، شفاف نظامِ حکومت، یکساں تعلیم، بہترین نظامِ صحت، قومی اداروں کو مضبوط کرنا، یکساں اور مضبوط احتساب، بلدیاتی اداروں کو مزید فعال کرنا، گڈگورننس اور نہ جانے کیا کیا!! بدقسمتی سے ایک وعدہ بھی پورنہ ہو سکا۔ ماڈل ٹائون کے شہدا کے بارے میں کہا گیا کہ جب ٹی وی پر سب کچھ نظر آ رہا ہے تو تحقیقات کیسی۔ ابھی انہیں کی حکومت ہے تو پوچھا جا سکتا ہے تاخیر کیسی! سانحہ ساہیوال تو انہی کی اپنی حکومت کے دوران ہوا۔ مگر کہاں ہے انصاف؟ ٹڈی دل بارے کہتے ہیں کہ ہم نے 31 جنوری سے منصوبہ بندی کر لی تھی تو پھر یہ نقصانات کیوں؟ کرونا وائرس کے بارے میں ان کی پالیسی کبھی سے ایک جیسی نہیں رہی۔ وہ اسے نزلہ اور زکام کہتے ہیں تو کبھی سنجیدہ بیماری۔ وہ لاک ڈائون کی وجہ اشرافیہ بتاتے ہیں تو کبھی عوام کی بے احتیاطی۔ سندھ حکومت کی نافرمانی کی داستان سناتے ہیں تو کبھی پنجاب اور کے پی کے میں اپنی بے بسی کی۔ ان کا تھوڑا سیاساسی پس منظر دیکھیں تو انہوں نے قوم اور باالخصوص یوتھ کو کیا سکھایا؟ سول نافرمانی، غیر اخلاقی تربیت، لڈی اور ڈانس۔ اس وقت وہ 22 کروڑ عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں، ان میں گونگے، بہرے ، اندھے، اپاہج، بیمار اور ضعیف سب شامل ہیں۔ ان کے سیکرٹریٹ اور پورٹل میں اب تک لاکھوں درخواستیں جمع ہو چکی ہیں، کیا کسی پر کوئی ایکشن ہوا؟ مرحوم ومغفور طارق عزیز کو اللہ تعالیٰ جنت میں جگہ عطا کرے اور ان کے درجات بلند کرے اپنے مشہور و معروف پروگرام کا آغاز دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام کہہ کر کرتے تھے۔ ایک انٹرویو میں ان سے پوچھا گیا کہ پہلے روایتی انداز میں آپ ’’تمام ناظرین کو طارق عزیز کا سلام‘‘ کہا کرتے تھے یہ تبدیلی کا باعث کیا بناء تو وہ غمگسار اور دکھی ہو کر کہنے لگے ایک دن مجھے ایک خط ملا جو ایک نابیناکا تھا جس میں لکھا تھا ’’طارق صاحب ! میں آپ کا پروگرام لازمی سنتا ہوں۔ لیکن آپ نے مجھے کبھی سلام نہیں کیا‘‘ یہ پڑھ کر میں ہل گیا اور اس دن کے بعد سے میں نے اس فقرے کا استعمال نہیں کیا۔ لوگوں میں بسنے والے، ہر محفل اور ہر گھر میں زیر بحث طارق عزیز کو صرف ایک خط ملا تھا۔ انہوں نے زندگی کی آخری سانس تک اپنا طریقہ مخاطب بدل لیا۔ نہ جانے ہمارے وزیراعظم کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں کہ جنہیں سینکڑوں اور لاکھوں بے بس شہریوں کے خط ملتے ہیں لیکن ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ طارق عزیز کا پروگرام ’’نیلام گھر‘‘
پاکستان ٹیلی وژن کا اپنے زمانے کا مقبول ترین پروگرام ہوتا تھا۔ اس پروگرام کی وجہ سے عوام کو شعور، آگہی اور علم میسر آیا۔ اس پروگرام کی وجہ سے طلباء سے اساتذہ تک، بیٹی سے لے کر ماں تک، ورکر سے لے کر افسر تک، مزدور سے مالک تک سب کو ہر طرح کی تعمیری تربیت حاصل ہوئی۔ لوگوں کو شعر و شاعری، حالاتِ حاضرہ ، کھیلوں ، بڑی اور کامیاب شخصیات سے متعلق الفرض جس شعبہ کا بھی ذکر کریں اس میں راہنمائی میسر ہوئی۔ اس کی صرف ایک وجہ تھی اور وہ یہ تھی کہ طارق عزیز مکمل تیاری کے ساتھ پروگرام میں آتے ، وہ بے تکی، فضول اور سیاق و سباق سے ہٹ کر کوئی بات نہ کرتے۔ میری ان سے پہلی ملاقات محترمہ خالدہ مظہر (جن دوست کا اوپر ذکر کیا ان کی اہلیہ) کے دفتر میں ہوئی۔ اس وقت پی ٹی وی میں کنٹرولر نیوز تھیں۔ طارق عزیز ہر لحاظ سے ایک جامع شخصیت تھے اور ہر بار ان سے مل کر مزا آتا۔ طارق عزیز سیاست میں بھی آئے۔ انہوں نے 1997 میں پہلا اور آخری قومی اسمبلی کا الیکشن لاہور سے (NA-94) لڑا۔ چونکہ ہماری یادداشت کمزور ہے۔ اس لیے یاددہانی کے لیے بتاتا چلوں کہ ان کے مدِمقابل کوئی اور نہیں تھا۔ فاتح کرکٹ کپ اور بانی شوکت خانم ہسپتال عمران خان تھے۔ طارق عزیز نے اس الیکشن میں پچاس ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر عمران خان کی ضمانت ضبط کروا دی تھی۔ چنانچہ ڈاکٹر یاسمین راشد اور بلاول بھٹو سے گذارش ہے کہ وہ ایک بار پھر جائزہ لیں کہ اہل لاہور جاہل ہیں یا عقلمند! انہوں نے تو عقل مندی کا ثبوت آج سے 23 سال پہلے دے دیا تھا۔ اور پھر زندہ دلان لاہور نے 2013، 2017 اور 2018 کے انتخابات میں ڈاکٹر یاسمین راشد کے خلاف فیصلہ دے کر اسی وقت یہ ثابت کر دیا تھا کہ ایسے لوگ قیادت کے اہل نہیں ہوتے، میرا مختصر سا عرصہ لاہور میں گذرا۔ لیکن سچ یہی ہے کہ لاہور، لاہور ہے ، زندہ دلانِ لاہور زندہ باد ، پاکستان پائندہ آباد!